تمام محفلین کی خدمت میں السلام علیکم
گزشتہ دنوں استادِ محترم الف عین صاحب کی زیرِصدارت اردومحفل کا سالانہ عالمی اردو مشاعرہ منعقد ہوا۔ منتظمین کی دن رات کی محنت اور جانفشانی کی بدولت تمام محفلین کو اس مشاعرے سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، مشاعرہ کے منتظمین @محمد خلیل الرحمٰن، مقدس آپی، محمد بلال...
شکریہ جاسمن آپی۔ حوصلہ افزائی کے لئے بہت بہت شکریہ۔ آپ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرماتی ہیں اور مجھ میں مزید لکھنے کا حوصلہ پروان چڑھتا ہے۔ بہت شکرگزار ہوں۔
کیا کمالِ جذب پنہاں جذبۂ کامل میں ہے
منزلِ مجذوب گویا جادۂ منزل میں ہے
کل تلک اک نرخرہ کٹنے ہی کی آواز تھی
آج برپا شور محشر کوچۂ قاتل میں ہے
انجمن تھا جو مری اور میرا سب کچھ تھا کبھی
اب فقط اک دوست ہے اور یاروں کی محفل میں ہے
منحصر لوحِ مورخ پر سبھی عدل و ستم
عدل جیسے قصّۂ نوشیراں عادل میں ہے...
کیسی ادا تھی کر دیا شامل بوسۂ نطق بہانے میں
کیا کوئی اس کا ثانی ہو گا روٹھا یار منانے میں
شامِ عنایتِ دزدیدہ کی یاد میں بیتا اپنا دن
مت پوچھو کیا جشن سہے ہیں ہجر کی رات منانے میں
دکھتی رگ سے بھی واقف ہے اور میری برداشت سے بھی
ورنہ کیا تفریق بچی تھی اپنے اور بیگانے میں
کوئی طنابیں خاطر میں کب...
میری اوقات، سیکھتا ہوں فُنون
تیرا منصب، کہے تُو کُن، فَیَکُون
خاک قاتل ہے خاک ہی مقتول
خاک مدفن ہے خاک ہی مدفون
سر میں سودا تھا، پھُوٹتا ہی رہا
نقشِ دیوار ہو گیا ہے جنون
یہ جہاں ہو یا وہ جہاں فاتحؔ
جس کی طاقت اسی کا ہے قانون
سبحان اللہ، بہت خوب فاتح بھیا بہت خوب
گھر بسانے کی تمنا کوچہء قاتل میں ہے
زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے
شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے
اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے
مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار
دائرہ کیسے بنے ، پرکارِ جاں مشکل میں ہے
دے گیا ہے ڈوبتا سورج اجالے کی نوید
ایک تازہ دن کہیں تقویم کی منزل میں...
ایک دو غزلوں کے کچھ منتخب اشعار پیش ِ خدمت ہیں ۔
راز درپردہء دستار و قبا جانتی ہے
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے
کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے
اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے
اور کیا دیتی محبت کے سوا...
میں اشکبارہوں نا ممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جارہا ہوں بارش میں
دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں
یہ جبرِ راہ گزر ہے ، سفر نہیں میرا
کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں
وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیر
بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں...
قریہء سیم و زر و نام و نسب یاد آیا
پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا
ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی
دور وہ دل سے ہوا کب ،ہمیں کب یاد آیا
عارضِ شب ہوئے گلنار ، صبا شرمائی
جب ترا غمزہء غمازِ طلب یاد آیا
یاد آئے ترےکم ظرف بہکنے والے
جامِ کم کیف بصد شور و شغب یاد آیا
چاندنی ، جھیل ،...
نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے
ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے
تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے
محمد وارث بھیا! کیا غزل عطا کی ہے، اور یہ اشعار پڑھ کر تو بےساختہ ہی منہ سے واہ واہ نکل رہی ہے۔ بہت خوب، بہت اعلیٰ۔ سلامت رہیں۔