بہت شکریہ، استادِ محترم، میں اس کو درست کرتا ہوں، مگر اسی قافیہ اور ردیف میں ایک اور غزل عرض ہے۔
کب میں تیرے خمار سے نکلا
درد و غم کے حصار سے نکلا
آگیا جو بھی شہر میں تیرے
پھر نہ وہ اس دیار سے نکلا
بکھرے ہیں دھوکے اتنے راہوں میں
اب یقیں اعتبار سے نکلا
آنکھ کی لغزشوں نے مارا ہے...