میں نے ایک طویل ( شاید عجیب بھی ) غزل لکھی ہے جس میں تخلص کو(ایک لفظ کی نشست کے ساتھ ) ردیف باندھا ہے، ذرا دیکھیئے گا۔
پڑھا تھا کبھی جو کتابوں میں راجا
وہ آتا ہے اب روز خوابوں میں راجا
کہوں میں یہ کیسے کہ ملتا نہیں ہے
وہ ملتا تو ہے پر حجابوں میں راجا
سرِ آب میں تو رہا ہوں پر یشاں
ملا...