مغل صاحب بہت شکریہ، میں آفیشل کام سے آیا تھا ذاتی طور پر آیا تو ضرور آپ سے ملاقات کی سعادت حاصل کروں گا۔شکریہ۔راجا میاں کراچی آئے ملاقات نہ ہونے پائی ------------------- پھرکبھی آئیں گے، ملاقات بھی ہوجائے گی۔۔۔۔
شہزادے بھائی خبر تو دی ہوتی ، ہم استقبال کو حاضر ہوجاتے۔۔
استادِ محترم شکریہ۔لو بھئی۔ تمہاری غزل کا پوسٹ مارٹم:
کھلا ہے دریچا عذابوں کا پھر سے۔۔۔ ص
لٹا شہر میرے ثوابوں کا پھر سے
نئی آگ پھر سے لگا دی کسی نے ۔۔۔۔ص
سلگنےلگاشہر خوابوں کا پھر سے
اوپر کے دونوں اشعار درست ہیں
نہ کربل رہا ہے، نہ غازی وہ اب تو
کرےکون بندمنہ کذابوں کاپھر سے
دوسرے مصرعے میں ’بند منہ‘ بر وزن فعلن غلط ہے، بند کی دال بے طرح گر رہی ہے جو قطعی جائز نہیں۔’کذّاب‘ میں ذال پر شد ہے، کذاب بوزن سراب غلط ہے۔ اس طرح یہ قافیہ قطعی فٹ نہیں ہوتا۔
نظر میں تڑ پنے لگی تشنگی پھر
وطن آ گیا ہے سرابوں کا پھر سے
وزن درست ہے، لیکن مفہوم کے اعتبار سے واضح نہیں۔ ’وطن آ گیا‘ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ جیسے آپ ٹرین میں بیٹھے ہیں اور سٹیشن آ گیا ہے۔ پھر ایک ہی سفر میں ایک منزل دو بار کس طرح آ سکتی ہے؟ ہاں وطن کی جگہ موسم قسم کا کوئی لفظ رکھا جائے تو تفہیم بہتر ہو سکتی ہے۔
دِلوں میں خزاؤں نے ڈالے ہیں ڈیرے
نہ آ ئے گا لہجہ گلابوں کا پھر سے ۔۔۔ص
اوزان میں درست ہے، شعر بھی اچھا ہے
لٹا میں کروں گا سرِ عا م راجا
زمانا ہے لوٹا خرابوں کا پھر سے
پہلے مصرعے میں ’ ’لُٹا میں کروں گا‘ جیسے جملے مجھے پسند نہیں آتے اگر رواں مصرعے بن سکیں تو۔۔ جیسے ’میں لٹ جاؤں گا پھر سرِ عام راجا‘ بہتر مصرع ہو سکتا ہے۔
میں عموماً ایسے الفاظ استعمال کرنا بھی پسند نہیں کرتا جس کے کئی تلفظ ہوں۔ یہاں ’لوٹا‘ کو کوئی ’لٗوٹا‘ پڑھ سکتا ہے تو کوئی بنا پیندے یا پیندے والا لوٹا بھی۔ اور ’ہے لوٹا‘ بھی کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔ معنی کے اعتبار سے یہاں خرابہ کا کیا مطلب ہے۔ جس کا زمانہ ہوتا ہے؟؟ خرابہ مقام کو کہتے ہیں جو وہرانہ ہو یا جہاں بربادی کے آثار ہوں۔ اس لئے اس مکمل شعر یعنی مقطع کو نکال دو تو بہتر ہے۔ کوئی دوسرا شعر کہو۔
بہت خوب جناب راجا صاحب آپ تو کمال کر رہے ہیں لگتا ہے آپ نے اس بحر کو نہیں چھوڑنا ارے بھائی نئی بحر میں بھی کچھ لکھنے تاکہ ہم اآگے بڑھ سکے بہت شکریہ
جی توجہ دلانے کا بہت شکریہ۔ اصل میں، میں فی الحال طالبعلم ہوں اور غلطیاں تو شاگردوں کا وطیرہ ہوتی ہیں، معافی کا خواستگار ہوں، آئیندہ پوری کوشش کروں گا، لیکن ایسی غلطیاں کبھی کبھی نادانستگی میں ہوں جائیں تو پیشگی معافی۔ شکریہ۔راجا صاحب ماشااللہ اب آپ اچھے خاصے شاعر ہوچکے ہیںاس لئے اب الفاظ کی درستگی کا بہت خیال رکھا کیجئے - آپ کی تحریر اور اس موضوع کے عنوان میں دو غلطیاں ہیں اسے درست کرلیں -
1- برائے کرم نہیں بلکہ براہِ کرم صحیح ہے - اسی طرح برائے مہربانی نہیں بلکہ براہِ مہربانی صحیح ہوتا ہے -
2- دوسرا لفظ تشنا نہیں بلکہ صحیح تشنہ ہے جیسے ایک شاعر ہیں عالمتاب تشنہ
تشنگی تشنگی، ارے توبہ!
قطرے قطرے کو ہم ترستے ہیں
اے خدواندِ کوثر و تسنیم
تیرے بادل کہاں برستے ہیں؟
ایک اور سوال
موسیقیت سے بھرپور بحر کون سی ہے؟
کذا بوں والا شعر تو قطعی فٹ ہو ہی نہیں سکتا اس بھر میں
ہاں، خرابوں والے شعر کا کچھ سوچتا ہوں۔ تم بھی سوچو۔
مغل صاحب بہت شکریہ، میں آفیشل کام سے آیا تھا ذاتی طور پر آیا تو ضرور آپ سے ملاقات کی سعادت حاصل کروں گا۔شکریہ۔
حضور اسکا مطلب ہیکہ ہم اپنی اس غزل کو مختصر کر کے تین اشعار پر موقوف کردیں؟نہیں بھئ راجا۔۔ یہ خرابہ خطر ناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس خرابے سے نکلنے کا چارہ نہیں لگتا۔۔
ارے واہ لگتا ہے آپ سب لوگ اس دھاگے کو بھول گئے ہیں!
چلیں تین اشعار پوسٹ کر رہا ہوں، براہِ کرم نظر فرما دیں۔
دکھوں کی یہ کھیتی وراثت ملی ہے
سسکتی مجھے تو شرافت ملی ہے
نظر در نظر ہیں سرابوں کے سائے
نہ دریا کی کوئی شہادت ملی ہے
اٹھایا گیا عدل کا پھر جنازہ
تڑپت، بلکتی، صداقت ملی ہے
اوزان مکمل درست ہیں راجا
دوسرا شعر خوب ہے۔
لیکن مطلع۔۔۔
ایک تو دونوں مصرعوں میں ربط دیکھنا مشکل لگتا ہے۔ یعنی واضح نہیں۔
دوسرے۔ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ دکھ وراثت میں ملے ہیں۔ تو یہ بات اس مصرعے میں نہیں آ رہی ہے۔
یا تو یوںہونا چاہئے کہ یہ کھیتی وراثت ’میں ملی ہے
یا پھر
اس کھیتی ’کی‘ وراثت ملی ہے۔
’کھیتی وراثت ملی ہے‘ غلط استعمال ہے۔