نتائج تلاش

  1. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    میں بے وفا ہوں مجھ کو گریبان سے پکڑ اور مجھ سے پوچھ میں ترا غم کدھر کیا
  2. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    دل کی ضد تھی کہ اسے دور سے چاہا جائے اور تنہائی اسے ہاتھ لگا بھی آئی میرے اطراف میں رات ایسی بلا کی چُپ تھی پھول ٹوٹا تو مجھے اس کی صدا یاد آئی میں ابھی سوچ رہا تھا کہ کھلوں یا نہ کھلوں میری چپ جا کے اسے بھید بتا بھی آئی میں نے اب تک نہیں دنیا کو مقابل جانا اپنی دانست میں وہ مجھ کو گرا بھی...
  3. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    ہم لوگ تری چُپ بھی کہاں جھیل سکے ہیں اس پہنچے ہوئے تیر کو جملے میں نہ رکھنا
  4. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    نیند آتے ہی مجھے اُس کو گزر جانا ہے وہ مسافر ہے جسے میں نے شجر جانا ہے چاند کے ساتھ بہت دور نکل آیا تھا اب کھڑا سوچتا ہوں میں نے کدھر جانا ہے اس کو کہتے ہیں ترے شہر سے ہجرت کرنا گھر پہنچ کر بھی یہ لگتا ہے کہ گھر جانا ہے
  5. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    کس جگہ ہم نے نہیں ٹوٹنے دینا ترا دل کس جگہ ہم نے بدلنا ہے بیاں جانتے ہیں
  6. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    چاند نکلے اور اس کی عزت افزائی نہ ہو کیسے ممکن ہے نگر میں کوئی سودائی نہ ہو
  7. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    تمہارے شہر کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا وہی اک جھیل ہوتی تھی جدھر جاتے تھے ہم دونوں سنہری مچھلیاں، مہتاب اور کشتی کے اندر ہم یہ منظر گم تھا پھر بھی جھیل پر جاتے تھے ہم دونوں زمستاں کی ہواؤں میں فقط جسموں کے خیمے تھے دبک جاتے تھے ان میں جب ٹھٹھر جاتے تھے ہم دونوں عجب اک بے یقینی میں گزرتی...
  8. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    زخم چھپانے کو ہم خلعت مانگتے ہیں تم کہتے ہو اجرِ ہجرت مانگتے ہیں میری دعا سے اور تری آمین سے کیا اس بستی کے لوگ قیامت مانگتے ہیں
  9. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر...
  10. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    مجھے بھی اوروں کی طرح کاغذ ملا ہے لیکن میں اس سے ناؤ نہیں سمندر بنا رہا ہوں اور اب اداسی کی ستر پوشی کا مرحلہ ہے تھکن کے دھاگوں سے ایک چادر بنا رہا ہوں
  11. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    کہاں وہ وقت کہ پانی سے خوف آتا تھا اور اب زمین میں چہرہ دکھائی دیتا ہے یہ دیکھنے کو تماشا بنے تماشائی وہ دیکھتا ہوا کیسا دکھائی دیتاہے
  12. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    کوئی کوئی عشق میں ہوتا ہے گمنام کوئی کوئی عزت والا ہوتا ہے اپنے دکھ اپنی آنکھیں روتی ہیں ہر گھر کا اپنا پرنالا ہوتا ہے رونے سے بھی رونق آتی ہے رخ پر بارش سے بھی حسن دوبالا ہوتا ہے روز ہی دل کو صاف کیا کرتا ہوں میں روز ہی اس کونے میں جالا ہوتا ہے ان میں سے ہوں جن کا سارا مال و منال ایک پیالہ...
  13. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    یوں بھی منظر کو نیا کرتا ہوں دیکھتا ہوں اسے حیرانی کے ساتھ گھر میں ایک تصویر جنگل کی بھی ہے رابطہ رہتا ہے ویرانی کے ساتھ
  14. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    دریا کی روانی ہے روانی کے علاوہ یہ بھید نہ سمجھا کوئی پانی کے علاوہ میں تجھ سے کہیں اور ملا ہوں خوابوں سے اُدھر عالمِ فانی کے علاوہ آئی جو کسی روز تو پوچھوں گا صبا سے کیا کرتی ہے پیغام رسانی کے علاوہ
  15. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    کیوں نہ پھر اسی سے تعلق کو نبھایا جائے جب کسی اور کا ہونا ہے اسی کا ہونا تیرا سورج کے قبیلے سے تعلق تو نہیں یہ کہاں سے تجھے آیا ہے سبھی کا ہونا
  16. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    یہ جو نشہ سا طاری ہے طاری رہے رقص جاری رہے میرے مولا یہ بے اختیاری رہے رقص جاری رہے ہم لہو میں نہائیں کہ جاں ہی سے جائیں تجھے اس سے کیا شہرِ تہمت تری سنگباری رہے رقص جاری رہے ہم نے تو جس جگہ تجھ کو رکھا وہیں آبلہ پڑ گیا پائے وحشت تری وضعداری رہے رقص جاری رہے ایک پاکوب سے کہہ رہا ہے چٹختا ہوا...
  17. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    پرندے بھی اگر مل بیٹھتے ہیں یہی لگتا ہے سازش ہو رہی ہے کسی نے خط میں لکھا ہے کہ تابش یہاں کچھ دن سے بارش ہو رہی ہے
  18. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    بے تعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں کتنا کچھ جان کے یہ بے خبری آتی ہے اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی ہاتھ گھل جاتے ہیں تب کوزہ گری آتی ہے کتنا رکھتے ہیں اِس شہر خموشاں کا خیال روز اک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے زندگی کیسے بسر ہو گی کہ ہم کو تابش صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے
  19. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    اب اس سے اگلا سفر ہمارا لہو کرے گا کہ ہم مدینے سے کربلا تک پہنچ گئے ہیں گلابوں اور گردنوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم کسی موسم ِ جزا تک پہنچ گئے ہیں تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں
  20. فلک شیر

    عباس تابش انتخاب ِعباس تابش

    کسی نے دیکھا کسی نے پوچھا کسی نے روک کسی نے ٹوکا ہمیں محبت سے پیشتر بھی بڑے بڑے تجربے ہوئے ہیں دعائیں ان کے لیے جنہیں دل لگانے کی دھن نہیں سمائی سلام ان پر کہ جو محبت میں جان سے بھی گئے ہوئے ہیں نہ اس میں آسیب ِ آرزو ہے ، نہ اس میں بچوں کی ہاؤ ہو ہے نہ جانے کیوں اس مکانِ دل سے محلے والے ڈرے...
Top