غزل
ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے
سائے میں غم کی آگ کے اکثر دبے رہے
فرقت کے روز و شب بڑے ہم پر کڑے رہے
ہم بھی اُمیدِ وصل کے بَل پر اڑے رہے
دِل اِنتظار سے تِری غافِل نہیں رہا
گھر کے کواڑ تھے کہ جو شب بھر کُھلے رہے
راتوں نے ہم سے عِشق کا اکثر لِیا خِراج
ضبط و حیا سے دِن میں کبھی...
غزل
پائی جہاں میں جتنی بھی راحت تمہی سے ہے
ہر وقت مُسکرانے کی یہ عادت، تمہی سے ہے
رکھتا ہُوں اب دُعا کو بھی ہاتھ اپنے میں بُلند
سب عِجز و اِنکسار و عِبادت تمہی سے ہے
ہر شے میں دیکھتا ہُوں میں، رنگِ بہار اب
آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے
ہوتا ہے ہر دُعا میں تمھارا ہی ذکر یُوں
لاحق ہماری...
انجان بن کے آیا وفا کا بہانے باز
ڈھلکائے سر ہے پیش حیا کا بہانے باز
باز آیا خُوں بہائے بِنا کب جفا شُعار
رحم و ترس بَروزِ جَزا کا بہانے باز
آیا میں بزْم میں، تو وہ باہر کھسک گیا
دینے جگہ اُٹھا تھا بَلا کا بہانے باز
تا عمر اب شراب، کہ ہے مہربانِ غیر
الزام مجھ پہ تھوپے لڑاکا بہانے باز...
رات ہوتے ہی کوئی یاد کا خوش کُن لمحہ !
نیند آنکھوں سے، سُکوں دِل سے مِٹا دیتا ہے
ذہن بے خوابئ آنکھوں کا سہارا پاکر
کیا نہ منظر کہ نِگاہوں میں سجا دیتا ہے
شفیق خلش