غزلِ
میر تقی میؔر
آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور
کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہَوا کُچھ اور
تدبِیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے
بیماری اور کُچھ ہے، کریں ہیں دوا کُچھ اور
مستان ِعِشق و اہلِ خرابات میں ہے فرق
مے خوارگی کُچھ اور ہے یہ ، نشّہ تھا کُچھ اور
کیا نسبت اُس کی قامتِ...
غزلِ
سِراجؔ اورنگ آبادی
سرشکِ سُرخ سے میرے ہیں چشمِ گریاں سُرخ
مثالِ کلکِ مصوّر ہیں مُوئے مِژگاں سُرخ
لِکھا ہُوں دلبرِ رنگیں کو عرضئ احوال
کِیا ہوں خُونِ جگر سے تمام افشاں سُرخ
اگر ، یہ دِیدۂ پُرخُوں مِرے کا عکس پڑے
عجب نہیں ہے، اگر ہوئے آبِ طُوفاں سُرخ
کِیا ہے بس کہ وہ گُل رُو نے عاشقوں کو...
مُنہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرَتی ہے یہ آئینہ کِس کا
داغ آنکھوں سے کُھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہُوا ہے نرگس کا
شام ہی سے بُجھا سا رہتا ہے
دل ہُوا ہے چراغ مُفلس کا
تاب کِس کوں جو حالِ میر سُنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا
میر تقی میر
عِشق نے خُوں کِیا ہے دِل جس کا
پارۂ لعل اشک ہے تس کا
چشم ِساقی کے وصف لکھتا ہوں
لے قلم ہات شاخ نرگس کا
تم نے پائے ہو حُسن کی دولت
پُوچھتے کب ہو حال مُفلس کا
بے کسی مجھ سیں آشنا ہے سِراج
نہیں تو عالَم میں کون ہے کِس کا
سِراج اورنگ آبادی
غزل
ڈاکٹر بشیر بدر
خوشبو کی طرح آیا ، وہ تیز ہَواؤں میں
مانگا تھا جسے ہم نے دن رات دُعاؤں میں
تم چَھت پر نہیں آئے، میں گھر سے نہیں نِکلا
یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹا ؤں میں
اِس شہر میں اِک لڑکی بالکل ہے غزل جیسی
بِجلی سی گھٹاؤں میں، خوشبُو سی ہَواؤں میں
موسم کا اِشارہ ہے خوش رہنے دو بچّوں...