You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
چند شاعر ہیں جو اس شہر میں مل بیٹھتے ہیں
ورنہ لوگوں میں وہ نفرت ہے کہ دل بیٹھتے ہیں
جاوید احمد
-
میرے اکسانے پہ میں نے مجھے برباد کیا
میں نہیں، میرا گنہگار پڑا ہے مجھ میں
انجم سلیمی
-
اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی
ماہرالقادری
-
جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمار ترا
یہ اجڑنا ہے، کوئی نقل مکانی تو نہیں
فرحت عباس شاہ
-
سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اتری
دل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے
فرحت عباس شاہ
-
ہم اگر تیرے خد و خال بنانے لگ جائیں
صرف آنکھوں پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں
مبشر سعید
-
جب سے وحشت نے نئی شکل نکالی اپنی
ہم جنوں زاد کسی دشت میں جانے سے گئے
مبشر سعید
-
گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہو گا
کیف بھوپالی
-
کیف پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہو گا
کیف بھوپالی
-
واعظِ شہر کی توبہ نہ کہیں ٹوٹی ہو
آج ہُو حق کی صدا آتی ہے میخانے سے
سید نصیرالدین نصیر
-
چشمِ ساقی نے پلائی تو کہیں بات بنی
کام میکش کا نہ شیشے سے نہ ساغر سے چلا
سید نصیرالدین نصیر
-
لوگ دھرتے ہیں کان چیخوں پر
ہم سی گونگی کتاب کون پڑھے
اتباف ابرک
-
جانے یہ کیسے فاصلے آئے ہیں درمیاں
مجھ میں جو بس رہا تھا، ملاقات سے گیا
اتباف ابرک
-
نشہ ہے عارضی ابرک یہ چاہے جانے کا
تمہارے دل سے بھی جلدی غرور نکلے گا
اتباف ابرک
-
لوگ مانگے کے اجالے سے ہيں ايسے مرعوب
روشنی اپنے چراغوں کی بجھا ديتے ہيں
آل احمد سرور
-
خدا پرست ملے، اور نہ بت پرست ملے
ملے جو لوگ وہ اپنے نشے میں مست ملے
آل احمد سرور
-
کوئی خلش جو مقدر تھی عمر بھر نہ گئی
علاج ایسے مریضوں کا چارہ گر کیا تھا
آل احمد سرور
-
ہیں گناہوں کی تجارت میں بھی سب سے آگے
یہ جو کرتے ہیں بہت بڑھ کے ثوابی باتیں
علی زریون
-
اصولی طور پہ مر جانا چاہیے تھا، مگر
مجھے سکون ملا ہے تجھے جدا کر کے
علی زریون
-
اپنا ہی جملہ کوئی منہ سے آ ٹکرائے گا
یہ بہری دیوار ہے مت کر باتیں زور سے
علی زریون