You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
سفر تمام ہوا، اور حیرتیں نہ گئیں
جو قربتیں تھیں وہاں فاصلہ بلا کا تھا
ادا جعفری
-
جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھاؤں میں وہ لوگ جلے ہیں
ادا جعفری
-
آپ کے ہاتھ میں شفا ہے بہت
آپ میرے طبیب ہو جائیں
عبدالحمید عدم
-
ہم نے خود مسکرا کے دیکھا ہے
مسکراہٹ بھی نوحہ خوانی ہے
عبدالحمید عدم
-
وہ خدا ہے، کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو، نہ کلیساؤں میں
قتیل شفائی
-
خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ
قتیل شفائی
-
برسوں چلے قتیل زمانے کے ساتھ ہم
واقف ہوئے نہ پھر بھی زمانے کی چال سے
قتیل شفائی
-
نہ مانگیے جو خدا سے تو مانگیے کس سے
جو دے رہا ہے اسی سے سوال ہوتا ہے
مادھو رام جوہر
-
کی ترک محبت تو لیا دردِ جگر مول
پرہیز سے دل اور بھی بیمار پڑا ہے
مادھو رام جوہر
-
واعظ کی بات دل میں جو اترے تو کس طرح
جب کان اس کی کثرتِ گفتار چاٹ لے
سید نصیرالدین نصیر
-
ارمانوں کی اِک بھیڑ لگی رہتی ہے دن رات
دل تنگ نہیں، خیر سے مہمان بہت ہیں
سید نصیرالدین نصیر
-
تُو جو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ مئے خانہ
تُو جو دیکھتا ہے تو جام بھی رقص کرتے ہیں
سید نصیرالدین نصیر
-
دھونی رمائی دَیر میں کعبے کو چھوڑ کر
کچھ آج کل کے سٹیج کا ایماں نہ پوچھئے
مخفی بدایونی
-
نظر آتی ہے ہر اک بت میں خدا کی قدرت
سلسلہ کعبہ سے ملتا ہے صنم خانے کا
مخفی بدایونی
-
اس زندگی نے ساتھ کسی کا نہیں دیا
کس بے وفا سے تجھ کو تمنا وفا کی ہے
مخفی بدایونی
-
کر قتل مجھے ان نے عالم میں بہت ڈھونڈا
جب مجھ سا نہ کوئی پایا، جلاد بہت رویا
تاباں عبدالحی
-
دیکھ قاصد کو میرے، یار نے پوچھا تاباںؔ
کیا مرے ہجر میں جیتا ہے وہ غمناک ہنوز
تاباں عبدالحی
-
کیا کہیں، کچھ نہیں ہے کہنے کو
ہائے! کیا غم ملا ہے سہنے کو
جون ایلیا
-
نہیں معلوم کیا سازش ہے دل کی
کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے
جون ایلیا
-
ہے اس سے جنگ اب ایسی کہ سامنا نہ کریں
کبھی اسی سے کمک مانگنے کی عادت تھی
جون ایلیا