You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
دل کی بستی سے سر شام جو اٹھا ہے دھواں
اچھے موسم کا اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے
ناظر وحید
-
پھر اٹھا یاد کے آنگن سے اداسی کا دھواں
کس نے طاقوں میں جلا کر مِری شامیں رکھ دیں
ناظر وحید
-
کی ترک محبت تو لیا دردِ جگر مول
پرہیز سے دل اور بھی بیمار پڑا ہے
مادھو رام جوہر
-
چھوڑنا ہے تو نہ الزام لگا کر چھوڑو
کہیں مل جاؤ تو پھر لطفِ ملاقات رہے
مادھو رام جوہر
-
لڑنے کو دل جو چاہے تو آنکھیں لڑائیے
ہو جنگ بھی اگر تو مزے دار جنگ ہو
مادھو رام جوہر
-
دل میں رہتے جو مِرے اور ہی کچھ ہو جاتے
یہ وہ کعبہ ہے کہ بت جس میں خدا ہوتے ہیں
مادھو رام جوہر
-
اب آ گیا ہے تو چپ چاپ خامشی کو سن
مِرے سکوت میں اپنی کوئی صدا نہ ملا
شہزاد نیر
-
دل کی نرم زمیں میں صرف محبت بو کر
اک موسم میں ڈھیروں درد کما سکتے ہو
شہزاد نیر
-
ورنہ دن رات میں سر توڑ مشقت کرتا
کیا کروں؟ پیار کمایا بھی نہیں جا سکتا
شہزاد نیر
-
آخری سانس تلک ان میں اضافہ ہی کرو
دوست بھی، رزق کی مانند ہوا کرتے ہیں
عابد کمالوی
-
ہجر و فرقت، غم و الام سے ہم کو نہ ڈرا
ہم نے اس عشق کے آزار بہت دیکھے ہیں
عابدکمالوی
-
دعا کرو کہ سلامت رہے مِری ہمت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
وسیم بریلوی
-
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھِیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستہ ملے
وسیم بریلوی
-
آٹھ رنگوں سے تِری شکل تو بنتی ہے مگر
میں نے ہر بار کسی رنگ کو کم پایا ہے
اُسامہ خالد
-
ہفتے میں اک دو بار اسے یاد کر سکوں
فکرِ معاش! اتنی سہولت تو دے مجھے
اسامہ خالد
-
تری کمی سے بکھرنے لگا ہے شیرازہ
تُو آئے گا تو تجھے ٹوٹ کر گلے ملیں گے
اسامہ خالد
-
اک بار اس کے ہاتھ کی تنبیہ کیا ملی
پنجرہ کھلا بھی پایا، مگر ہم نہیں اڑے
اسامہ خالد
-
مقیّد کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
قتیل شفائی
-
جس کا جی چاہے وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
قتیل شفائی
-
ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیل
اپنے دکھوں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام
قتیل شفائی