غزل
کل جو دِیوار گِراتا ہُوا طوُفاں نِکلا
پائے وحشت کے لئے گھر میں بَیاباں نِکلا
جانے کِس غم سے منوّر ہے ہر اِک لَوحِ جَبِیں
درد ہی رشتۂ اوراقِ پریشاں نِکلا
سر جُھکایا تو کبھی پاؤں تراشے اپنے !
پھر بھی مقتل میں مِرا قد ہی نُمایاں نِکلا
جال ہر سمت رِوایَت نے بِچھا رکھّے تھے
بابِ اِنکار...
غزل
میں تو چُپ تھا مگر اُس نے بھی سُنانے نہ دِیا
غمِ دُنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دِیا
اُس کا زہرآبۂ پَیکر ہے مِری رگ رگ میں
اُس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دِیا
اُس نے دُوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا
کُچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دِیا
بادبان اپنے سفِینے کا ذرا سی لیتے
وقت اِتنا...
سراج الدین ظفر صاحب
اپنی واحد کتاب 'غزال وغزل' پر آدم جی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں ( فیض صاحب بھی انتخاب کمیٹی میں تھے )
PIA کی قاہرہ سروس شروع ہونے کی آزمائشی پرواز میں اپنے بیگم کے ساتھ تھے، فضائی حادثہ میں ہلاک ہوگئے
فیروز سنز گھرانے کے داماد تھے :)
غزل
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے...
غزلِ
روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا
دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا
کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا
راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا
اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا
کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا
وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے...
غزلِ
سو دُوریوں پہ بھی مِرے دِل سے جُدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
دِل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دِیا
ورنہ وہ آنکھ اِتنی زیادہ خفا نہ تھی
یُوں دِل لرز اُٹھا ہے کسی کو پُکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خِزاں جو شاخ سے ٹوُٹا وہ خاک تھا
اِس جاں سُپردگی کے تو...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے
دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے
کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے
بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو...