جہاں میں ہُوں !
آنند نرائن مُلّا
وہی حِرص و ہَوَس کا تنگ زِنداں ہے جہاں میں ہُوں
وہی اِنساں، وہی دُنیائے اِنساں ہے، جہاں میں ہُوں
تمنّا قید، ہمّت پابَجولاں ہے جہاں میں ہُوں
مجھے جکڑے ہُوئے زنجیرِ اِمکاں ہے جہاں میں ہُوں
کبھی شاید فرشتہ آدمِ خاکی بھی بن جائے
ابھی تو بھیس میں اِنساں کے...
غزلِ
شفیق خلش
منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے
جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے
مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل
پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے
بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں
لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے
اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری
کچھ روز و شب...
غزلِ
دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں
کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں
بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں
کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ...
غزلِ
شاعر فتحپوری
چُھوتی ہے تِرے گیسو بَدمست ہَوا کیسے
ہم بھی تو ذرا دیکھیں اُٹھتی ہے گھٹا کیسے
گردِش میں تو جام آئے، معلوُم تو ہو جائے
میخانہ لُٹاتی ہے ساقی کی ادا کیسے
کیا راہِ محبّت میں کُچھ نقشِ قدم بھی ہیں
کھوئے ہُوئے پاتے ہیں منزِل کا پتا کیسے
نظریں تو اُٹھاؤ تم، دِل ہنْس کے بتا...