غزلِ
آپ کہیے تو سب بَجا کہیے
کیوں نہ پھر آپ کو خدا کہیے
دوست کہیے نہ آشنا کہیے
ہیں بَضِد ہم سے کُچھ جُدا کہیے
اُن کو کہیے اگر تو کیا کہیے
روگِ دِل کی نہ گر دوا کہیے
دردِ فرقت ہے اب سَوا کہیے
موت یا وہ، رہی دوا کہیے
جان کہتے ہیں، راحتِ جاں بھی !
بڑھ کر اِس سے بھی کیا خدا کہیے
اُن...
غزل
مجھ سے مِلنے شبِ غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دِیوار پہ جم جائے گا
ٹھہرو ٹھہرو، مِرے اصنامِ خیالی ٹھہرو !
میرا دِل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دِلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی، زخم ہے، بھر جائے گا
عزم پُختہ ہی سہی ترکِ وفا کا، لیکن
مُنتظر ہُوں کوئی آکر مجھے...
غزل
پلکوں پہ دِل کا رنگ فروزاں نہیں رہا
اب ایک بھی دِیا سَرِ مِژگاں نہیں رہا
قلبِ گُداز و دِیدۂ تر تو ہے اپنے پاس
میں شاد ہُوں، کہ بے سَروساماں نہیں رہا
آنکھوں میں جَل اُٹھے ہیں دِیے اِنتظار کے
احساسِ ظُلمتِ شَبِ ہجراں نہیں رہا
تُجھ سے بچھڑ کے آج بھی زندہ تو ہُوں، مگر
وہ اِرتعاشِ تارِ...
غزل
آ ہ رُکتی نظر نہیں آتی
آنکھ لگتی نظر نہیں آتی
یاد ٹلتی نظر نہیں آتی
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی
کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے
دُھند چَھٹتی نظر نہیں آتی
گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا
یاس ہٹتی نظر نہیں آتی
یُوں گُھٹن سی ہے اِضطراب سے آج
سانس چلتی نظر نہیں آتی
کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو...
غزل
شفیق خلش
عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے
ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے
زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل
وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے
بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن
دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے
کیا اُمید اُن سے کچھ بدلنے کی
ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی ہُوئے
وہ جنھیں ہم نے دی ذرا...