غزل
یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو
بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو
وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے
میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں
برہنہ شہر میں...
غزل
جب چلا وہ مجھ کو بِسمِل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتِل کا داماں چھوڑ کر
میں وہ مجنوں ہُوں جو نِکلوں کُنجِ زِنداں چھوڑ کر
سیبِ جنّت تک نہ کھاؤں سنگِ طِفلاں چھوڑ کر
میں ہُوں وہ گمنام، جب دفتر میں نام آیا مِرا
رہ گیا بس مُنشیِ قُدرت جگہ واں چھوڑ کر
سایۂ سروِ چمن تجھ...
ُ
غزل
نِیم جاں چھوڑ گئی نِیم نِگاہی تیری
زندگی تا صد و سی سال الٰہی تیری
ناز نیرنگ پہ، اے ابلقِ ایّام نہ کر
نہ رہے گی یہ سفیدی یہ سِیاہی تیری
دِل تڑپتا ہے تو کہتی ہیں یہ آنکھیں رو کر
اب تو دیکھی نہیں جاتی ہے تباہی تیری
کیا بَلا سے توُ ڈراتی ہے مجھے، اے شَبِ گور
کچھ شبِ ہجْر سے بڑھ کر ہے...