غزل
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہُوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہُوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہُوں
میں نہیں ہُوں نغمۂ جاں فِزا، مجھے سُن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہُوں صدا، میں بڑے دُکھی کی پُکار ہُوں
میرا رنگ رُوپ بِگڑ گیا، مِرا یار مجھ سے بِچھڑ گیا
جو چمن...
غزلِ
عجب روِش سے اُنھیں ہم گلے لگا کے ہنسے
کہ گُل تمام گلِستاں میں کِھلکِھلا کے ہنسے
جنھیں ہے شرم وحیا اِس ہنسی پہ روتے ہیں
وہ بے حیا ہے ہنسی پر جو بے حیا کے ہنسے
غم والم مِرا اُن کی خوشی کا باعث ہے
کہ جب ہنسے وہ، مجھے خُوب سا رُلا کے ہنسے
نِکالا چارہ گروں نے جو ذکر مرہم کا
تو خُوب...
غزلِ
گُلشن میں جب ادا سے وہ رنگِیں ادا ہنسے
غُنچے کا مُنہ ہے کیا کہ جو پھر اے صبا ہنسے
دِیوانے کو نہیں تِرے پروا، کہ اے پری !
دِیوانگی پہ میری کوئی روئے یا ہنسے
روئے غمِ فِراق میں برسوں ہم، اے فلک
گر وصل کی خوشی میں کبھی اِک ذرا ہنسے
چارہ کرے اگر تِرے بِیمارِ عِشق کا
تدبِیرِ چارہ ساز...
غزل
نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے
جو ہے باہر، تو اندر کچھ نہیں ہے
محبّت اور نفرت کے عِلاوہ
جہاں میں خیر یا شر کچھ نہیں ہے
مجھے چھوٹی بڑی لگتی ہیں چیزیں
یہاں شاید برابر کچھ نہیں ہے
حقِیقت تھی، سو میں نے عرض کردی
شِکایت بندہ پَروَر کچھ نہیں ہے
نہ ہو کوئی شریکِ حال اُس میں
تو...