غزلِ
بُھلا دو، رنج کی باتوں میں کیا ہے
اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے
بہت تارِیک دِن ہے، پھر بھی دیکھو
اُجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے
نہیں پاتِیں جسے بَیدار نظریں
خُدایا یہ مِرے خوابوں میں کیا ہے
یہ کیا ڈُھونڈے چَلے جاتی ہے دُنیا
تماشہ سا گلی کوُچوں میں کیا ہے
ہے وحشت سی یہ ہرچہرے...
غزلِ
سردار نقوی
رنگ اِک آتا رہا چہرے پہ اِک جاتا رہا
میں تو ماضی کو فقط آئینہ دِکھلاتا رہا
دُھوم تھی جس کے تکّلم کی، وہی جانِ سُخن
جب حدیثِ دِل کی بات آئی تو ہکلاتا رہا
پیاس صحرا کے مُقدّر میں جو تھی، سو اب بھی ہے
ابر برسا بھی تو، بس دریا کو چھلکاتا رہا
بڑھ کے جو آغوش میں لے لے، کوئی ایسا...
غزلِ
گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم
جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم
بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں
لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم
نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور
توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم
اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں
نبرد آرا سا رہتے ہیں...
غزلِ
اپنا چمَن نہیں تو خِزاں کیا، بہار کیا
بُلبُل ہو نغمہ سنج سرِشاخسار کیا
مِنّت پذیرِ شوق، نہ مانوُس اِضطراب
تجھ کو قرار آئے دِلِ بیقرار کیا
غفلت کا ہے یہ حال، کہ اب تک خبر نہیں
اِس انجُمن میں کیا ہے نہاں، آشکار کیا
ناآشنائے راز ہیں سرگشتگانِ ہوش
پُوچھے کوئی خِزاں سے الگ ہے بہار کیا...
پنڈت برج نارائن چکبست
دِل ہی بُجھا ہُوا ہو تو لُطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا ، شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا
یہ دِل کی تازگی ہے ، وہ دِل کی فسُردگی
اِس گُلشنِ جہاں کی خِزاں کیا، بہار کیا
کِس کے فسُونِ حُسن کا دُنیا طلِسم ہے
ہیں لوحِ آسماں پہ یہ نقش و نِگار کیا
دیکھا سرُور بادۂ ہستی کا خاتمہ
اب...
غزلِ
میر تقی میر
مُدّت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں
نامے کا اُس کی مہر سے اب نام بھی نہیں
ایّامِ ہجْر کریے بسر کِس اُمید پر
مِلنا اُنھوں کا صُبح نہیں، شام بھی نہیں
پَروا اُسے ہو کاہےکو، ناکام گر مَرُوں
اُس کام جاں کو مجھ سے تو کُچھ کام بھی نہیں
رووَیں اِس اِضطراب دِلی کو کہاں تلک
دِن...
"اخلاقیات سے قطع نظر ادبیات کے حوالے سے بہرحال ایہام گو شعراء نے الفاظ کے مفاہیم اور معنوی لطافتوں اور نزاکتوں کے حوالے سے جو کام کیا وہ ناقابل فراموش ہے ۔ کثیرالمعنویت کی اہمیّت مُسلّمہ ہے۔ لفظ کی حُرمت اور اُسے برتنے کا قرِینہ آنا چاہیے ۔ ایہام گو شعرا نے مرصّع ساز کا کردار ادا کیا، الفاظ کو...
غزلِ
عقل کی سطْح سے کُچھ اور اُبھر جانا تھا
عِشق کو منزلِ پَستی سے گُزر جانا تھا
جلوے تھے حلقۂ سر دامِ نظر سے باہر
میں نے ہر جلوے کو پابندِ نظر جانا تھا
حُسن کا غم بھی حَسِیں، فکر حَسِیں، درد حَسِیں
اس کو ہر رنگ میں، ہر طور سنْور جانا تھا
حُسن نے شوق کے ہنگامے تو دیکھے تھے بہت
عِشق کے...
غزلِ
چُھپ کے دُنیا سے سوادِ دلِ خاموش میں آ
آ یہاں تُو مِری ترسی ہُوئی آغوش میں آ
اور دُنیا میں ترا کوئی ٹِھکانہ ہی نہیں
اے مِرے دِل کی تمنّا لبِ خاموش میں آ
مَئے رنگیں! پسِ مِینا سے اِشارے کب تک
ایک دن ساغرِ رِندانِ بَلا نوش میں آ
عِشق کرتا ہے، تو پھر عِشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو،...
منزل
گُزرے ظُلماتِ جہاں سے بہ سلامت مُلّا
ڈر رہے تھے نہ گُزر پائیں گے، بارے گُزرے
کُچھ تو راہیں تِری نظروں نے فروزاں کردِیں
کُچھ سے ہم اپنے ہی اشکوں کے سہارے گُزرے
آنند نرائن مُلّا
بہت خوب کہی غزل
بہت ہی لطف دیا پڑھنے پر :)
مژدہ باد آبلہ پایانِ رہِ شوقِ وفا
بالا مصرع درست ٹائپ نہیں ہوا ہے شاید ؟
اس میں کوئی لفظ ٹائپ ہونے سے شاید رہ گیا ہے
دیکھ لیجئے :)
ڈوبنے والے کی میّت پر لاکھوں رونے والے ہیں
پھوٹ پھوٹ کر جو روتے ہیں وہی ڈبونے والے ہیں
بہت ہی خوب ، شکریہ شیئر کرنے پر
کاشفی صاحب !
دل والوں تم پاؤں نہ رکھنا کبھی سیاست نگری میں
اس میں ٹائپو ہے ،
دل والو تم پاؤں نہ رکھنا
نون غنا اضافی ٹائپ ہو گیا ہے، درست کردیں :)
غزل
حَسن اختر جلیل
آرزُو کی ہَما ہَمی اور میں
دردِ دِل، دردِ زندگی اور میں
موجۂ قلزمِ ابَد، اور توُ
چند بُوندوں کی تِشنگی اور میں
رات بھر تیری راہ تکتے رہے
تیرے کُوچے کی روشنی اور میں
چُھپ کے مِلتے ہیں تیری یادوں سے
شب کی تنہائی، چاندنی اور میں
ایک ہی راہ کے مُسافِر ہیں...