غزلِ
حُسن پھر فِتنہ گر ہے کیا کہیے
دِل کی جانِب نظر ہے کیا کہیے
پھر وہی رہگُزر ہے کیا کہیے
زندگی راہ پر ہے کیا کہیے
حُسن خود پردہ وَر ہے کیا کہیے
یہ ہماری نظر ہے کیا کہیے
آہ تو بے اثر تھی برسوں سے !
نغمہ بھی بے اثر ہے کیا کہیے
حُسن ہے اب نہ حُسن کے جلوے
اب نظر ہی نظر ہے کیا کہیے...
غزلِ
پیار اچھّا نہ محبّت کا وبال اچّھا ہے
جس سے پُوری ہو تمنّا وہ کمال اچّھا ہے
ضُعف سے جوشِ محبّت کو زوال اچّھا ہے
مر مِٹے جانے کو ورنہ وہ جمال اچّھا ہے
گھر بَسائے ہُوئے مُدّت ہُوئی جن کو، اُن سے
اب بھی کیوں ویسی محبّت کا سوال اچّھا ہے
کچھ سنبھلنے پہ گلی پھر وہی لے جائے گا
دِل کا غم سے...
غزلِ
وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجیے
رات دِن صُورت کو دیکھا کیجیے
چاندنی راتوں میں اِک اِک پُھول کو
بے خودی کہتی ہے سجدہ کیجیے
جو تمنّا، بر نہ آئے عُمر بھر
عُمر بھر اُس کی تمنّا کیجیے
عِشق کی رنگینیوں میں ڈُوب کر
چاندنی راتوں میں رویا کیجیے
پُوچھ بیٹھے ہیں ہمارا حال وہ
بے خوُدی توُ ہی...
غزلِ
شُعاعِ مہْر سے خِیرہ ہُوئی نظر دیکھا
نہ راس آیا ہمیں جَلوۂ سَحر دیکھا
خوشی سے غم کو کُچھ اِتنا قرِیب تر دیکھا
جہاں تھی دُھوپ وہیں سایۂ شجر دیکھا
جَلا کے سوئے تھے اہلِ وفا چراغِ وفا
کُھلی جو آنکھ اندھیرا شباب پر دیکھا
خِزاں میں گائے تھے جس نے بہار کے نغمے
اُسے بہار میں محرومِ بال و...
غزلِ
زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا، کہ ابھی وقت ہے سنبھلنے کا
بہار آئے، چلی جائے، پھر چلی آئے
مگر یہ درد کا موسم نہیں بَدلنے کا
یہ ٹِھیک ہے، کہ سِتاروں پہ گُھوم آئے ہم
مگر کِسے ہے سلِیقہ زمِیں پہ چلنے کا
پِھرے ہیں راتوں کو آوارہ ہم نے دیکھا ہے !
گلی گلی میں سماں چاند کے...
غزلِ
فروغِ شہرِ صدا پرتوِ خیال سے تھا
کہ یہ طلِسم تو بس خواہشِ وِصال سے تھا
جو کھو گیا کسی شب کے سِیہ سمندر میں
بندھا ہُوا میں اُسی لمحۂ زوال سے تھا
میں قید ہوگیا گُنبد میں گوُنج کی مانند
کہ میرا ربط ہی اِک ناروا سوال سے تھا
جو خاک ہو کے ہَواؤں میں بہہ گیا ہے کہیں
مِرا وجُود اُسی...
دھوکہ کریں، فریب کریں یا دغا کریں
ہم کاش دُوسروں پہ نہ تُہمت دھرا کریں
رکھّا کریں ہر ایک خطا اپنے دوش پر
ہر جُرم اپنے فردِ عمَل میں لِکھا کریں
احباب سب کے سب نہ سہی لائقِ وفا
ایک آدھ با وفا سے تو وعدہ وفا کریں
رُوٹھا کریں ضرُور، مگر اِس طرح نہیں
اپنی کہا کریں نہ کسی کی سُنا کریں...
غزلِ
کبھی اپنے عشق پہ تبصرے، کبھی تذکرے رُخِ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خِزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
سِیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دِید کی،...
غزلِ
ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے
یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے
یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے
مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج
اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے
گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے...