زندگی کیا ہے گناہِ آدم
زندگی ہے، تو گنہگار ہُوں میں
رشکِ صد ہوش ہے مستی میری
ایسی مستی ہے کہ، ہُشیار ہُوں میں
لے کے نِکلا ہوُں گُہر ہائے سُخن
ماہ و انجُم کا خرِیدار ہُوں میں
دیر و کعبے میں، مِرے ہی چرچے
اور رُسوا سرِ بازار ہُوں میں
کُفر و اِلحاد سے نفرت ہے مجھے
اور مذہب سے بھی بیزار ہُوں...