دیئے کی لَو کی طلاطم سے ڈر رہا ہُوں میں
یہ کِس خرابۂ شب سے گزُر رہا ہُوں میں
اب اِس میں ہاتھ ہوں زخمی، کہ سر صلیب پہ ہو
وہ لِکھ رہا ہُوں جو محسُوس کر رہا ہُوں میں
مُنافقت کو مِلی جب سے رہبری کی سند
پسِ غُبارِ سفر در بدر رہا ہُوں میں
عنبر امروہوی
جو عَدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی !
اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو
جس کی فرقت نے پلٹ دی عِشق کی کایا، فراق !
آج اُس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو
فراق گھورکھپوری
نکہتِ زُلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صُبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو
ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے
یوں ہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو
فراق گھورکھپوری
ہم زباں میرے تھے اُن کے دل مگر اچھّے نہ تھے
منزلیں اچھی تھیں، میرے ہمسفر اچھّے نہ تھے
اِک خیالِ خام ہی مُرشد تھا اُن کا ، اے منیر !
یعنی اپنے شہر میں اہلِ نظراچھّے نہ تھے
منیر نیازی
چلی سمتِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظرِ تغافلِ یار کا، گِلہ کِس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خُمِ دل میں تھی سو بھری رہی
سراج اورنگ آبادی