غزل
(بہزاد لکھنوی)
حُسن کو بےنقاب ہونا تھا
عشق کو کامیاب ہونا تھا
پُر ہیں اشکوں سے کیوں تری آنکھیں
ان کو جامِ شراب ہونا تھا
پڑی تھی آپ کی نگاہِ کرم
ذرّے کو آفتاب ہونا تھا
مسکراتیں نہ کیوں تری نظریں
ہر نظر کا جواب ہونا تھا
تیرے جلوؤں کی اس میں کیا ہے خطا
حال دل کا خراب ہونا تھا
عشق کس واسطے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تو وہی، ترا شباب وہی
کیوں نہ ہو مجھ کو اضطراب وہی
ظاہراَ جس کو ہوگی ناکامی
ہوگا اُلفت میں کامیاب وہی
دیکھتی ہیں تری نگاہیں کیا
ہے مرا عالمِ خراب وہی
فرق ساقی کی ہے نگاہوں کا
ورنہ ساغر وہی، شراب وہی
لاکھ اُلفت کے باوجود اب تک
تجھ کو مجھ سے ہے اجتناب وہی
نگہِ استعجاب کیا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
محبت سے دل کو میں آگاہ کرلوں
ذرا ٹھہرو! ہلکی سی اک آہ کرلوں
بتاؤٖ ذرا میرے ہوجاؤ گے تم
میں دل میں تمہارے اگر راہ کرلوں
مزہ چاہ کرنے کا آجائے مجھ کو
کسی بےوفا سے اگر چاہ کرلوں
اُٹھاؤ نظر، جب ہی الزام دینا
اگر اپنے دل کی میں پرواہ کرلوں
جب ہی آئیں گی لذتیں رہروی کی
ذرا اپنے...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
غم نہیں ہے ہمیں ملال نہیں
حال یہ ہے کہ کوئی حال نہیں
اب ستم ہو تو کیا، کرم ہو تو کیا
اب کسی بات کا خیال نہیں
اک نظر کہہ گئی جو کہنا تھا
ہر نظر مائلِ سوال نہیں
اب تو کچھ کچھ سکوں بھی ملتا ہے
مضطرب ہوں مگر حال نہیں
اپنی بربادیوں کا کیوں غم ہو
یہ تو آغازِ ہے مآل نہیں
مل چکا...
کوئی دیکھے یا نہ دیکھے شبیر تو دیکھے گا۔۔۔لیکن حیرت ہے اب تک شبیر نے بھی نہیں دیکھا اور نہ میری نظر سے یہ نظم گزری۔۔
خوبصورت نظم شیئر کرنے کے لیئے بیحد شکریہ فاتح الدین بشیر بھائی۔۔۔