جی آپ نے بالکل بجا ارشاد فرمایا کہ وہ بے مثال عشقیہ اور علمیہ نظم ہے اور جب جب اس کو پڑھیں تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ روح تک سرشار ہو گئی ہو
عشقیہ کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ
آ کچھ سنادے عشق کے بولوں میں اے رضا
سبحان اللہ ، مجھے تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا سارا ہی کلام...
جھلک سی اک قدسیوں پہ آئی ، ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی، برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے روح الامیں کے بازو، چھڑا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی، امید ٹوٹی،نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
روش کی گرمی کو جس نے سوچا، دماغ سے اک بھبوکا پھوٹا
خرد کے جنگل میں پھول چمکا، دَہر...
وہی تو اب تک چھلک رہا ہے ، وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے
بچا جو تلووں کا اُنکے دھوون، بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنہوں نے دولہا کی پائی اُترن، وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
وہا ں کی پوشاک زیبِ تن کی ،...
بہت خوبصورت ریلوے اسٹیشن ہیں واقعی یہاں آکر تو کہیں اور جانے کا دل ہی نہیں چاہے گا
سب ہی اپنے ملک کی ترقی کے لئے کام کرتے ہیں اور یہاں کی حکومت۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ :(