ہر سانس میں کِھلتی ہُوئی کلیوں کی مہک تھی
یہ بات ہے اُس دَور کی جب دل میں کسک تھی
اب چاند کے ہمراہ نکلتے نہیں وہ لوگ
اِس شہر کی رونق مِری آوارگی تک تھی
ناصر کاظمی
آخر یہ حُسن چُھپ نہ سکے گا نِقاب میں
شرماؤگے تمھیں، نہ کرو ضِد حِجاب میں
پامال شوخیوں میں کرو تم زمین کو !
ڈالوں فلک پہ زِلزلہ میں اِضطراب میں
روشن ہے آفتاب کی نِسبت چراغ سے
نِسبت وہی ، ہے آپ میں اور آفتاب میں
دل کی گِرہ نہ وا ہُوئی دردِ شبِ وصال !
گُزری تمام بست و کشادِ نقاب میں
رنجِ...
رفتہ رفتہ عِشق ، مانوسِ جہاں ہوتا چلا !
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
حُسن کو اِک حُسن ہی سمجھے نہیں اور،اے فراق
مہرباں ، نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
فراق گورکھپوری
فراق گورکھپوری
غزل
کُچھ اِشارے تھے جنھیں دُنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اُس نِگاہِ آشنا کو ، کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے
واہ ری غفلت تُجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ہوش کی توفِیق بھی ، کب اہلِ دل کو ہوسکی
عِشق میں ، اپنے کو دِیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
پردۂ آزردگی...
شب نہ کٹتی تو نئی آگ نہ جلتی دل میں
صبح کی ساری شرارت ہے ، مگر شام کا نام
دل کی چیخوں میں سُنائی نہیں دیتا کچھ بھی
شبِ خاموش ہے شاید اِسی کُہرام کا نام
کتنے معصُوم ہیں اِنساں ، کہ بہل جاتے ہیں
اپنی کوتاہی کو دے کر غم و آلام کا نام
احمد ندیم قاسمی
آدمی ہے نہ آدمی کی ذات
کیسی ویراں ہے تیرے شہر کی رات
پوُچھ لے اِن اُجاڑ گلیوں سے
تُجھے ڈھونڈا ہے ساری ساری رات
میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہُوں
تُو کہاں تک چلے گا میرے سات
اپنا سایہ بھی چھُپ گیا ناصر
یہاں سُنتا ہے کون کِس کی بات
ناصر کاظمی
اِس دُنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
مُنہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کِس نے کِس کو یاد کیا ہے
تیرے ساتھ گئی وہ رونق
اب اِس شہر میں کیا رکھا ہے
دھیان کے آتش دان میں ناصر
بُجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے
ناصر کاظمی