ایسا بننا سنورنا مُبارک تُمہیں
کم سے کم اِتنا کہنا ہمارا کرو
چاند شرمائے گا چاندنی رات میں
یُوں نہ زُلفوں کو اپنی سنوارا کرو
یہ تبسّم یہ عارض یہ روشن جبِیں
یہ ادا یہ نِگاہیں یہ زُلفیں حسِیں
آئینے کی نظر لگ نہ جائے کہیں
جانِ جاں اپنا صدقہ اُتارا کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبحان الله !
بہت ہی خوب شراکت وقاص...
غزلِ
افتخارعارف
کہتا نہیں ہے کوئی بھی سچ بات اِن دنوں
اچھّے نہیں ہیں شہر کے حالات اِن دنوں
احباب کا رَویّہ بھی بدلا ہُوا سا ہے
کچھ تنگ ہوگیا ہے مِرا ہاتھ اِن دنوں
اُس کو بھی اپنے حُسن پہ اب ناز ہوگیا !
ٹھہرے ہُوئے ہیں میرے بھی جذبات اِن دنوں
اُلجھا دِیا ہے مُجھ کو غمِ روزگار نے !
مُمکن...
کِسی کا عہدِ رفاقت ، وفا ہُوا ہی نہیں
جسے میں سمجھا تھا اپنا، مِرا ہُوا ہی نہیں
یہ ٹھیک ہے کہ محبّت نے راستے بدلے
مگر وہ شخص تو دِل سے جُدا ہُوا ہی نہیں
باقر زیدی