غزل
میر تقی میر
کیا بُلبُلِ اسیر ہے بے بال و پر ، کہ ہم
گُل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اِس قدر ، کہ ہم
خورشید صُبْح نِکلے ہے اِس نُور سے کہ تُو
شبنم گِرہ میں رکھتی ہے یہ ، چشمِ تر! کہ ہم
جیتے ہیں تو دِکھاویں گے ، دعوائے عندلیب !
گُل بِن خِزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر ، کہ ہم
یہ تیغ ہے، یہ طشت...