غزل
(بہزاد لکھنوی)
دل کی حالت کہی نہیں جاتی
اور کہوں تو سُنی نہیں جاتی
او مرا قلب توڑنے والے
پھول کی تازگی نہیں جاتی
رات کی رات کٹ گئی توبہ
قلب کی بےکلی نہیں جاتی
دامنِ دوست نے کرم تو کیا
چشمِ تر کی نمی نہیں جاتی
اللہ اللہ کسی کا رعبِ جمال
ہم سے تو بات کی نہیں جاتی
ان پہ کیوں اعتبار کرتا...