مانا کہ تیری دِید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، مِرا اِنتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوقِ دِید نے آنکھیں تِری اگر
ہر رہ گزُر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ
علامہ اقبال
گلزار ہست و بُود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اِسے بار بار دیکھ
آیا ہے تُو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ
علامہ اقبال
ایک مکڑا اور مکھی
علامہ اقبال
(ماخوذ )
بچوں کے لیے
اِک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اِس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بُھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے!
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کِھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے...
ہمد ر د ی
علامہ اقبال
( ماخوذ از ولیم کُوپر )
بچوں کے لیے
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بُلبُل تھا کوئی اُداس بیٹھا
کہتا تھا کہ، رات سر پہ آئی
اُڑنے چگنے میں دن گزارا
پُہنچُوں کِس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سُن کر بُلبُل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہُوں، مدد...
ایک پہا ڑ اور گلہری
علامہ اقبال
(ماخوذ از ایمرسن)
(بچوں کے لیے)
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اِک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے ، اس پر غرور ، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ ، یہ شعور ، کیا کہنا!
خُدا کی شان ہے ناچیز، چیز بن بیٹھیں
جو بے شعُور ہوں یوں باتمیز بن...
غزلِ
ضیا جالندھری
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے
بھیگ جاتی ہیں اِس اُمّید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب لبِ جُو آئے
ہم تیری یاد سے کترا کے گزُر جاتے مگر
راہ میں پُھولوں کے لب، سایوں کے گیسُو آئے
وہی لب تشنگی اپنی، وہی ترغیبِ...
میں نے کچُھ اِختلاف کِیا آپ سے اگر !
غصہ عبث ہے، آپ کا نوکر نہیں ہُوں میں
اے قبلہ ! آپ مُجھ پہ چڑھے آتے ہیں یہ کیوں
ممبر اِس انجمن کا ہُوں، منبر نہیں ہُوں میں
اکبرالٰہ آبادی
ارمغاں ہیں تِری چاہت کے شگفتہ لمحے !
بیخودی اپنی، شب اپنی ، مہ تاباں اپنا
اس طرح عکس پڑا تیرے شفق ہونٹوں کا !
صُبحِ گُلزار ہُوا، سینۂ ویران اپنا
ضیا جالندھری
غزلِ
ضیا جالندھری
جب اُنہی کو نہ سُنا پائے غمِ جاں اپنا
چُپ لگی ایسی، کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نا رسائی کا بیاں ہے، کہ ہے عرفاں اپنا
اس جگہ اَہْرَمن اپنا ہے، نہ یزداں اپنا
دم کی مُہلت میں ہے، تسخیرِ مہ و مہر کی دُھن !
سانس، اِک سلسلۂ خوابِ درخشاں اپنا
ہے طلب اُس کی ، کہ جو سرحدِ اِمکاں...
غزلِ
ضیا جالندھری
کیا سَروکار اب کسی سے مجھے
واسطہ تھا، تو تھا تجھی سے مجھے
بے حسی کا بھی اب نہیں احساس
کیا ہُوا تیری بے رُخی سے مجھے
موت کی آرزو بھی کر دیکھوں !
کیا اُمیدیں تھیں زندگی سے مجھے
پھر کسی پر، نہ اعتبار آئے!
یوں اُتارو نہ اپنے جی سےمجھے
تیرا غم بھی نہ ہو، تو کیا جِینا
کچھ...