نتائج تلاش

  1. س

    چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

    مینا و جام کیا ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں چھو لیں جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے دنیا کی دلکشی سے ہمیں کچھ غرض نہیں تنہا ہے زندگی جو وہ ساری سراب ہے صفحاتِ زیست میرے پلٹ کر تو دیکھ تُو بس اک خیال تیرا مکمل نصاب ہے۔ کر دے فضاؤں کو جو معطر چہار سُو فصلِ بہار میں تُو وہ کھلتا گلاب ہے پہلے تھی ناتواں...
  2. س

    چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

    اسی طرح ہے فلسفی بھائی
  3. س

    چراغِ سحر بھی بجھے جارہے ہیں (بغرض اصلاح)

    نہیں آشنا ہیں وہ قیمت سے اپنی فقیہِ حرم اب ، بکے جارہے ہیں فاخر بھائی اگر اس کو یوں کر لیا جائے کہاں آشنا ہیں وہ قیمت سے اپنی فقیہِ حرم جو ، بکے جارہے ہیں بتاؤ! یہ کیسی قیامت ہے یارو! بتوں کے وہ آگے جھکے جارہے ہیں
  4. س

    چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

    سر الف عین یاسر شاہ عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے مینا و جام کیا ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے دنیا کی دلکشی سے ہمیں کچھ غرض نہیں تنہا ہے زندگی جو وہ ساری سراب ہے صفحاتِ زیست میرے پلٹ کر تو دیکھ تُو بس اک خیال تیرا مکمل نصاب ہے۔ کر دے فضاؤں کو...
  5. س

    میری آج اس کے سبب شہر میں پہچان ہوئی

    عظیم بھائی اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
  6. س

    خود شبِ ہجر میں تڑپو گے تو یاد آؤں گا

    بہت شکریہ عظیم بھائی بہت ہی بہتر اصلاح کی ہے آپ نے
  7. س

    خود شبِ ہجر میں تڑپو گے تو یاد آؤں گا

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے جب بھی برسات میں بھیگو گے تو یاد آؤں گا بھیگی زلفوں کو سنوارو گے تو یاد آؤں گا میرے معصوم سے جذبے مری پاگل باتیں جب کبھی بیٹھ کے سوچو گے تو یاد آؤں گا کل کسی اور نے جب تم کو دئیے یہ آنسو اپنے خود اشک جو پونچھو گے تو یاد آؤں گا...
  8. س

    میری آج اس کے سبب شہر میں پہچان ہوئی

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے کیسی ہستی ہے کہ جو روح کی مہمان ہوئی پھول آنگن میں کھلے وجہ گلستان ہوئی میری آنکھوں میں چکا چوند لگی ہے کب سے میری آج اس کے سبب شہر میں پہچان ہوئی جب سنی تھی ترے جانے کی خبر لوگوں سے یوں لگا ہستی مری بے سروسامان ہوئی اس کا منہ...
  9. س

    تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی

    شکریہ بھائی اس کو دیکھتا ہوں
  10. س

    صورت جینے کی نہیں رہتی

    فعلن فعلن فعلن فعلن ہیں عظیم بھائی افاعیل
  11. س

    صورت جینے کی نہیں رہتی

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے جتنے بھی ملے خونخوار ملے کوئی تو یہاں غمخوار ملے اس شہر میں سب سپنے ٹوٹے دکھوں کے یہاں انبار ملے کیسے منزل تک پہنچوں مَیں رستے ہی ناہموار ملے صورت جینے کی نہیں رہتی اپنوں سے جب انکار ملے بے ساختہ لپٹے پھولوں سے آغوش میں لے کر...
  12. س

    تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی یوں صدا دے کر نہ تم کو اب ستائیں گے کبھی ہم معافی کے ہیں طالب سب خطائیں کر معاف یادِ ماضی کو نہ اب منہ سے لگائیں گے کبھی ایک مدت سے تمھاری منتیں کرتے رہے بارہا انکار کیسے ہم بھلائیں گے کبھی...
  13. س

    اس نے زلفوں کو ہواؤں میں اچھالا ہو گا

    فیصلہ کر، کہ مرے غم کا مداوا ہو گا یا سرِ بزم کوئی اور تماشا ہو گا روح تک زخم لگے ہیں جو اگر رِسنے لگے کون اس وقت بھلا میرا مسیحا ہو گا آج خوشبو سے معطر ہیں فضائیں کتنی ہاں کہیں زلفوں کو پھر اس نے سنوارا ہو گا بس تری نام کی مجھ سے ہے شناسائی بھی کل تلک میں نے بھرم یہ بھی گنوایا ہو گا ایک...
  14. س

    کچھ ایسی رہ اختیار کرنا

    لہو سے میں نے جو باب لکھے۔ تم ان کو نذرِ بہار کرنا ملے جو ان کی گلی سے مجھکو نہ تم وہ غم سب شمار کرنا میں خواہشوں کے بھنور سے نکلوں تم ایسی رہ اختیار کرنا مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ مری لحد انتظار کرنا تمھاری خواہش تھی مر گیا ہوں مجھےنہ اب داغدار کرنا سر نظر ثانی کی استدعا ہے
  15. س

    کچھ ایسی رہ اختیار کرنا

    سر کوشش کرتا ہوں
  16. س

    اس نے زلفوں کو ہواؤں میں اچھالا ہو گا

    عظیم بھائی کو کہیں سے تنافر آ جائےگا
  17. س

    اس نے زلفوں کو ہواؤں میں اچھالا ہو گا

    شکریہ عظیم بھائی مشورے دونوں اشعار میں بہت بہتر ہیں
Top