نہ وہ آرام جاں آیا نہ موت آئی شب وعدہ
اسی دُھن میں ہم اُٹھ اُٹھ کے ہزاروں بار بیٹھے ہیں
وہ مشغول ستم ہیں اور ہم مصروف ضبط اے دل
نہ وہ بیکار بیٹھے ہیں نہ ہم بیکار بیٹھے ہیں ۔۔۔
دل شاہجہانپوری
اصلی نام ۔ ضمیر حسن خاں
ان غزل گویوں کا ہے معشوق ایسا نازنیں
نام جس کا دفتر مردم شماری میں نہیں
ان کے دل میں شعر کی روشن ہو کس صورت سے آگ
قافیے کے ہا تھ میں رہتی ہے جن لوگوں کی باگ
جوش ملیح آبادیؔ
دردِ دل میں کمی نہ ہو جائے
دوستی دشمنی نہ ہو جائے
تُم میری دوستی کا دم نہ بھرو
آسماں مدعی نہ ہو جائے
بیٹھا ہوں ہمیشہ رندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے
اپنی خوئے وفا سے ڈراتا ہوں
عاشقی ، بندگی نہ ہو جائے
بیخود دہلوی
اصل نام , سیّد وحیدالدین احمد
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی پوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
دن کو اِک نُور برستا ہے میری تُربت پر
رات کو چادرِ ماہتاب تنی ہوتی ہے
لُٹ گیا وہ تیرے کوچے میں رکھا جس نے قدم
اِس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے
ہجر میں زہر ھے ساغر کا لگانا مُنہ سے
مے کی جو بوند ہے ، ہیروں کی کنی...
مٹ گیا جب مٹنے والا ، پھر سلام آیا تو کیا
دِل کی بربادی کے بعد اُن کا پیام آیا تو کیا
چھوٹ گئیں نبضیں ، اُمیدیں دینے والی ہیں جواب
اب اُدھر سے نامہ بر لے کے پیام آیا تو کیا
آج ہی مٹنا تھا اے دِل ! حسرتِ دیدار میں
تُو میری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا
کاش اپنی زندگی میں ہم یہ منظر دیکھتے...