نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    احترام ضروری ہے

    اس دنیا میں بے شمار لوگ آباد ہیں اور ہر انسان اپنا الگ مزاج رکھتا ہے، ہر ایک کا کوئی نہ کوئی زاویہءِ نگاہ ہے جو کہ دوسرے لوگوں سے الگ ہو سکتا ہے۔ ہر کوئی ہر کسی سے متفق ہو سکا نہ کبھی ہو گا۔ یہ زندگی کا اپنا مزاج ہے کہ یہ ہر بات پر اتفاق نہیں چاہتی۔ بنانے والے نے نظام ایسا بنایا ہے کہ اس میں...
  2. نوید ناظم

    اندھیرے تھے مگر ایسے نہیں تھے (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

    اندھیرے تھے مگر ایسے نہیں تھے کہ سورج سے کبھی جھگڑے نہیں تھے ہمیں صحرا نے گھیرا ہر طرف سے ابھی پانی سے بھی نکلے نہیں تھے مِرا دل آپ کا رستہ نہیں تھا؟ یہاں سے آپ کیا گزرے نہیں تھے؟ پھر آنکھوں سے ہمیں لینا پڑا کام یہ بادل تو کبھی برسے نہیں تھے مجھے اندر ہی اندر کھا گئے ہیں جو آنسو آنکھ سے...
  3. نوید ناظم

    میں زمیں زاد ہی سہی لیکن (بحرِ خفیف)

    میں زمیں زاد ہی سہی لیکن آسماں سے گزر کر آیا ہوں جانتا ہوں عدم کو اچھی طرح میں وہاں سے گزر کر آیا ہوں بیچ میں حرفِ کُن بھی آیا تھا میں جہاں سے گزر کر آیا ہوں وہ جبینیں ملائکہ کی تھیں جس نشاں سے گزر کر آیا ہوں اب نہیں واپسی کا رستہ بھی اب تو جاں سے گزر کر آیا ہوں
  4. نوید ناظم

    مِرے پاس کوئی دیا بھی نہیں ( فعولن فعولن فعولن فعل)

    مِرے پاس کوئی دیا بھی نہیں مگر رات سے کچھ گلہ بھی نہیں مجھے چھوڑ کر وہ گیا خوش نہ ہو مِرا جو نہ تھا وہ تِرا بھی نہیں وہ مجھ کو کہاں ڈھونڈتا ہو گا اب اُسے دشت کا کچھ پتہ بھی نہیں چراغوں کو آخر یہ کیا ہو گیا یہ کیوں بجھ گئے ہیں، ہوا بھی نہیں نجانے مجھے چھوڑ کر کیوں گیا وہ اب تک کسی کا ہُوا بھی...
  5. نوید ناظم

    ادب پہلا قرینہ ہے۔۔۔۔!

    ادب' زندگی کا وہ اثاثہ ہے کہ جس پر کسی مسافر کے سفر کی اساس قائم ہوتی ہے۔ اسے محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ بھی کہا جاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے۔ اصل میں ادب ایک مقام ہے جس پر صرف خوش نصیب فائز ہو سکتا ہے۔ سر کو جھکانا کسی مُردے کے بس کی بات نہیں ہے۔ طریقت کا سفر در حقیقت ادب کا سفر ہے۔ کہتے ہیں...
  6. نوید ناظم

    یار کر جاتے ہیں احسان وغیرہ خود ہی (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن)

    دل کا جو کرتے ہو نقصان وغیرہ خود ہی لے نہ جائے یہ کہیں جان وغیرہ خود ہی ہم کہاں اور کہاں غم یہ تو یوں ہی ہم پر یار کر جاتے ہیں احسان وغیرہ خود ہی آ گیا ہوں جو تِرے دل میں برا کیا اس میں گھر ہے تو آئیں گے مہمان وغیرہ خود ہی تیرا غم اور تری یاد یہیں ہے اب تک آ کے لے جاؤ یہ سامان وغیرہ خود ہی...
  7. نوید ناظم

    جی مِرا اک کام تو کر دیجیے (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    جی مِرا اک کام تو کر دیجیے دل کو میرے نام تو کر دیجیے مجھ سے سورج پھر نہ الجھے گا کبھی زلف کھولیں! شام تو کر دیجیے ڈر رہا ہوں پارسائی سے بہت مجھ کو اب بدنام تو کر دیجیے حُسن کی کھونٹی سے باندھیں عشق کو اب یہ گھوڑا رام تو کر دیجیے آنکھ ہم سے بھی ملائیں نا کبھی اِس نظر کو جام تو کر دیجیے آپ...
  8. نوید ناظم

    پروین شاکر سے معذرت

    اس نے سینڈل سے مری ایسی ٹھکا ٹھائی کی '' روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی'' وہ بلا ناغہ کراتا ہے مجھے ایزی لوڈ ''بس یہی بات ہے اچھی مِرے ہرجائی کی''
  9. نوید ناظم

    اُن سے عرضِ تمنا کریں بھی تو کیا (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    اُن سے عرضِ تمنا کریں بھی تو کیا سوچتے ہیں کہ ایسا کریں بھی تو کیا جب رقیب اُن کے دل میں بسا ہے تو پھر وہ مِرے پاس بیٹھا کریں بھی تو کیا ہے یہاں پر غموں کی قطاریں لگیں پھر کسی غم کو چلتا کریں بھی تو کیا جب کسی کو کسی سے غرض کچھ نہیں ہم کسی سے کچھ اچھا کریں بھی تو کیا تیرے پہلو میں ملتی نہیں...
  10. نوید ناظم

    آپ کا پیار ہے جو کچھ بھی ہے (بحر خفیف)

    یہ تو بے کار ہے جو کچھ بھی ہے پسِ دیوار ہے جو کچھ بھی ہے یہ ہنر ہے کہ دل سے کھیلے گا خیر فنکار ہے جو کچھ بھی ہے آپ کے سامنے بھلا میں کیا؟ میری سرکار ہے جو کچھ بھی ہے! وہ نظر دل کو چیر جائے گی دیکھ تلوار ہے جو کچھ بھی ہے کس لیے اُس کو بے وفا کہنا پھر بھی وہ یار ہے جوکچھ بھی ہے صرف باتوں سے...
  11. نوید ناظم

    صورتِ حال عجیب نہیں ہے؟ ( فِعل فعول فعول فعولن)

    زخمِ جگر ہے طبیب نہیں ہے صورتِ حال عجیب نہیں ہے؟ تم سے جو دور ہے دل تو گلہ کیوں یہ تو مِرے بھی قریب نہیں ہے کون تھا ہجر کے حق میں یہاں پر کس نے کہا یہ صلیب نہیں ہے؟ کیوں نہ ہو اُس سے ستم کی توقع دشمنِ جاں ہے، حبیب نہیں ہے! منبرِ عشق پہ جھوٹ کہے کیوں دل ہے مِرا، یہ خطیب نہیں ہے جان چھڑک تو...
  12. نوید ناظم

    آؤ دوستی کریں

    یہ زندگی ہماری ہے مگر ہم اپنی زندگی کے خالق نہیں ہیں۔ ہم صرف آرزوئیں تخلیق کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر آرزو کا پورا ہو جانا ممکن نہیں ہے۔ ہم جو چہرہ لے کر پیدا ہوتے ہیں ساری زندگی اُسی چہرے کے ساتھ بسر کرنا پڑتی ہے۔۔۔ ہمارے ماں باپ ہمیشہ کے لیے ہمارے ماں باپ ہیں۔ بہن بھائی، رشتہ دار،...
  13. نوید ناظم

    سوہنیا سانوں تیرے دکھ

    ایتھے سب نوں اپنے اپنے سوہنیا سانوں تیرے دکھ اسیں وچ ولیجے رہ گئے ساڈے چار چوفیرے دکھ ٹاواں ٹاواں خوشیاں کدھرے ہر تھاں ہین گھنیرے دکھ توں نئیں ساڈے ویڑے وڑیا مڑ مڑ پاون پھیرے دکھ ساڈے حصے ویکھ کی آیا ہنجو، ہجر، ہنیرے، دکھ حالے تک وی نال نے ساڈے تیتوں ودھ پکیرے دکھ یار نے ساڈی جھولی پائے...
  14. نوید ناظم

    یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر؟ ( مفعول مفاعلن فعولن)

    دل ہے کہ دِیا ہے، کیا ہے آخر؟ کچھ جل تو رہا ہے، کیا ہے آخر؟ شاید یہ کمال ہجر کا ہو کیوں درد اٹھا ہے، کیا ہے آخر؟ کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے اُس کو جو دِکھا ہے کیا ہے آخر؟ زنجیر ہے، دام ہے، کہ شب ہے؟ وہ زلف گھٹا ہے، کیا ہے آخر؟ دیکھو تو سہی کبھی مِرا دل یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر؟ یہ درد ہے؟...
  15. نوید ناظم

    محرومی ندارد!

    دنیا کا حسن یہ ہے کہ دنیا میں کچھ بھی ایک جیسا نہیں ہے۔۔۔ سب کے چہرے الگ ہیں، ماں باپ الگ ہیں، حالات، حالت، خیال، آواز اور نصیب بھی الگ الگ ہیں۔ کوئی انسان پسند کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو کوئی ناپسند کو زندگی سے نکالنا چاہتا ہے، سب خوش ہیں مگر کوئی خوش نہیں، کوئی دکھی نہیں مگر سب دکھی ہیں۔ کسی کو...
  16. نوید ناظم

    جس کا ڈر تھا وہی ہوا نا(مفعولن فاعلن فعولن)

    جس کا ڈر تھا وہی ہوا نا آخر وہ اجنبی ہوا نا میرے مرنے پہ کہہ رہا ہے چھوڑو بس ٹھیک ہی ہوا نا رسوائی عشق میں ہے لازم دیکھا! یہ کام بھی ہوا نا سانسوں کا ربط اُس سے قائم مطلب وہ زندگی ہوا نا میں اُس کو بھولنے لگا ہوں پھر یہ سانس آخری ہوا نا؟ جو میرا گھر جلا رہا تھا وہ نذرِ تیرگی ہوا نا مجھ کو...
  17. نوید ناظم

    تم تو سنتے نہیں فغاں ورنہ (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    تم تو سنتے نہیں فغاں ورنہ ہم کو کرنا تھا غم بیاں ورنہ جھانک کر دیکھتا نہیں دل میں درد اپنا بھی ہے نہاں ورنہ تم زمیں کو لپیٹ لو اپنی ہم نہ لے جائیں آسماں ورنہ برق سے بے خبر ہمیں رکھا ہم بناتے نہ آشیاں ورنہ اس سے غم کو نکال دیتا ہوں کیونکہ لمبی ہے داستاں ورنہ یوں نہ ہم پر ستم روا رکھو کیا...
  18. نوید ناظم

    ہم نے دل کی مانی ہے (فاعلن مفاعیلن)

    آنکھ میں جو پانی ہے یہ بھی اک نشانی ہے کون کس کا ہو گا اب یہ تو بس کہانی ہے لو بدل گئے تیور کچھ تو اس نے ٹھانی ہے حُسن خود ہے حیرت میں توبہ کیا جوانی ہے یوں نہیں ہوئے برباد ہم نے دل کی مانی ہے دشت سے مِری یاری؟ یہ تو بہت پرانی ہے!
  19. نوید ناظم

    مغوی

    آج انسان کا انسان سے رشتہ یا تو خوشامد کا ہے یا مصلحت اندیشی کا۔۔۔۔ مشکل ہے کہ اگر کوئی ہمیں ہماری خامی سے آگاہ کرے اور ہم اسے اپنا دوست خیال کرلیں، حالانکہ اخلاص کا تقاضا خوبی سے آگاہ کرنا ہو یا نہ ہو، خامی سے آگاہ کرنا ضرور ہے۔ ہم یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہمیں اصلاح کی ضرورت ہو سکتی...
  20. نوید ناظم

    تم نے تو آ کے میرا نقصان کر دیا ہے (مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن)

    دل نے نثار بت پر ایمان کر دیا ہے کافر نے کفر کو بھی حیران کر دیا ہے اے یارِ من کہاں تم، اور یہ وفا کہاں پر عجلت میں تم نے یہ کیا پیمان کر دیا ہے جو ہجر میں مزا تھا وہ وصل میں نہ ہو گا تم نے تو آ کے میرا نقصان کر دیا ہے اس پر فتن زمانے میں درد کون دیتا صد شکر تم نے مجھ پر احسان کر دیا ہے ناصح...
Top