نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    خوش رہو۔۔۔۔۔!!!

    انسان خوش رہنا چاہتا ہے اور اپنی خوشی کے حصول کے لیے دکھوں کے اندر سے گزرتا رہتا ہے۔ یہ دوڑتا ہے' بھاگتا ہے اور مسرتیں تلاش کرتا ہوا حسرتوں تک جا پہنچتا ہے۔ نئی خوشیوں کی آرزو اسے نئے غموں سے متعارف کرواتی ہے۔ حاصل کی آرزو میں صرف آرزو حاصل ٹھہرتی ہے اور یوں انسان ڈھیر ساری آرزوئیں سینے میں...
  2. نوید ناظم

    کام مشکل ہے مگر کر دیجئے (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    کام مشکل ہے مگر کر دیجئے دشت زادوں کو ذرا گھر دیجئے لطف سجدوں کو ملے گا دیکھنا اس جبیں کو بس کوئی در دیجئے بے وفا کوئی کہے کیوں آپ کو اب یہ تہمت مجھ پہ ہی دھر دیجئے آنکھ اشکوں سے تو بھر دی ہے مِری زخمِ دل کو بھی کبھی بھر دیجئے صرف دل سے کام چلتا ہی نہیں عشق ہے نا آپ کو؟ سر دیجئے!
  3. نوید ناظم

    ضرورتوں میں بندھے ہم

    بچہ جب ماں کو پکارتا ہے تو اصل میں وہ غذا کو پکارتا ہے، بچہ ماں کے لیے روتا ہے مگر درِ پردہ تو بھوک ہے جو غذا کے لیے رو رہی ہے۔ بچہ چیختا ہے مگر بچہ خاموش ہے، یہ اس کی ضرورت ہے جو چیخ رہی ہے۔ اسی طرح ہم اللہ کو پکارتے ہیں مگر وہ پکار' ضرورت کی پکار ہوتی ہے۔ اللہ والے اللہ کو ضرورتوں سے آزاد ہو...
  4. نوید ناظم

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ناخدا تو گیا اور آئے کوئی خوب! کہتا ہے صیاد پر کاٹ کر یہ پرندہ رِہا ہے اڑائے کوئی دیکھنے کو تماشا تو آئیں گے وہ آگ میرے بھی گھر کو لگائے کوئی خوش نہ ہونے کی جس نے قسم کھائی ہو دوست ! اُس دل سے کیسےنبھائے کوئی تم بتاؤ بھلا یہ کوئی بات ہے دل اگر مانگ لیں، روٹھ جائے...
  5. نوید ناظم

    ساڈے موتیاں ورگے ہنجو

    ساڈے موتیاں ورگے ہنجو اسیں خاک اچ دتے رول اسیں روندے ہاڑے لَے کے ساڈے کول نہ بیندا ڈھول تیرے منہ چ اَک دیاں ولاں کدی مٹھڑے بول وی بول اسیں سچیاں گلاں آکھدے سانوں کون بٹھاوے کول توں ساڈا بھار جے ویکھنا سانوں عشق دی تکڑی تول تیرے اندر گنجل بیلیا اپنے دل دیاں گنڈھاں کھول ساڈے ہتھ چ یار دا...
  6. نوید ناظم

    نازک مسائل اور ہمارا رویہ

    دین میں اخلااقیات انتہائی اہم ہیں مگر اخلاقیات بذاتِ خود کوئی دین نہیں۔۔۔۔ دین کی بنیاد اچھائی اور برائی پر نہیں ہے بلکہ اچھائی اور برائی کے بارے احکمات دینے والے سے متعلق ہے۔ ایک ایسا انسان جو اسلام کی تمام خوبیوں کا قائل ہے اور کلمہ طیبہ کا قائل نہیں ہے تو ہم اسے مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ اس کے...
  7. نوید ناظم

    ہم سے یہ زندگی بسر نہ ہوئی (بحرِ خفیف)

    ہونی تو چاہیے تھی پر نہ ہوئی ہم سے یہ زندگی بسر نہ ہوئی شب عجب معجزہ ہوا یارو غم کے ماروں پہ شب' سحر نہ ہوئی دل کو کس بات پر خوشی ہو گی؟ اس کے آنے پہ بھی اگر نہ ہوئی پیڑ اس شاخ سے خفا ہے اب وہ جو بار آورِ ثمر نہ ہوئی میرے مرنے پہ اس نے آنا تھا شاید اس کو ابھی خبر نہ ہوئی
  8. نوید ناظم

    ہم، ہمارا دور، ہماری الجھنیں

    آج کا دور ایک عجیب دور ہے، ویسے تو ہر دور کا انسان اپنے دور کے متعلق یہی کہتا رہا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم فرمایا کرتے کہ جو میرا زمانہ ہے اس میں اعلیٰ خصلت لوگ روپوش اور گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ اسی دور کے قریب ہی کی بات ہے کہ اگر کوئی بزرگوں کے پاس دعا کے لیے جاتا تو بزرگ کہتے کہ اس وقت...
  9. نوید ناظم

    برائے اصلاح ( بحرِ رمل)

    رب کوئی پیڑ مجھے ایسا دے پھل نہیں تو نہ سہی، سایا دے وہ غمِ جاں بھی دے گا دل کے ساتھ؟ اس کو کب منع کیا' اچھا' دے دل تو صحرا ہے' لق و دق صحرا کوئی تو اِس کو بھی اب دریا دے آنکھ خود پردہ ہے بینائی کا تجھ کو اللہ دلِ بینا دے سب طرف دار ستم گر کے ہیں کوئی اُس کو بھی کبھی سمجھا دے کر دیا ہو گا...
  10. نوید ناظم

    بس کر اب خواب دکھانے والے (بحرِ رمل)

    بس کر اب خواب دکھانے والے وہ نہیں لوٹ کے آنے والے مر گیا کوئی گلی میں اُس کی یوں نبھاتے ہیں نبھانے والے رک تو جا، پوچھ تو لے پھر ان سے مجھ کو محفل سے اٹھانے والے اک نظر میرے قفس پر بھی ہو اے پرندوں کو اڑانے والے تجھ کو ویرانی دعا دیتی ہے دشت سے ہاتھ ملانے والے آنکھ خیرہ ہو گئی سورج کی رخ سے...
  11. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

    کسی نے اس سے یہ پوچھا کہاں ہے! مِرے پہلو میں جو دل تھا کہاں ہے؟ جو میری دھوپ پر کل ہنس رہی تھی اب اُس دیوار کا سایہ کہاں ہے فقط ملتا ہے وہ اپنی غرض سے مِرے دل سے کوئی رشتہ کہاں ہے مریضِ عشق کا چارہ عبث ہے اب اِس نے ہجر میں بچنا کہاں ہے لو پیاسا مر رہا ہے تشنگی سے کوئی پوچھے کہ اب دریا کہاں...
  12. نوید ناظم

    برائے اصلاح (بحر خفیف)

    ہم کو فرصت ملی تو جی لیں گے زندگی طاق پر ابھی رکھ دو کیوں اندھیروں سے رات خائف ہے اس کے سینے میں روشنی رکھ دو کیا پتہ دل کو یوں قرار آئے میرے سینے پہ ہاتھ ہی رکھ دو روشنی کیوں اگل رہا ہے شمس حلق میں اس کے تیرگی رکھ دو پھر یہ دریا نہیں چھلک سکتا بس کناروں پہ تشنگی رکھ دو اس سے پہلے کہ عشق...
  13. نوید ناظم

    دشمن

    زندگی میں جہاں دوست موجود ہوتے ہیں وہیں دشمن بھی ساتھ ہوتے ہیں۔۔۔۔ دشمن وہ ہے جو انسان سے اس کا سکون چھیننے کی کوشش کرے چاہے وہ کسی روپ میں ہو۔ وہ امیر دشمن ہے اُس غریب کا جس کے سامنے وہ اپنے پیسے کی نمائش کرتا ہے۔۔۔ ایسا امیر اپنے حاصل کو غریب کی محرومی ثابت کرنا چاہتا ہے۔ امیر کی دولت کی...
  14. نوید ناظم

    برائے اصلاح (بحرِ خفیف)

    ہم سے رشتہ ذرا نہیں رکھتا کہ ستم بھی روا نہیں رکھتا ایک دل ہی نہیں ملا اس کو دیکھ لو ورنہ کیا نہیں رکھتا ہم اسی بت کے ہو گئے آخر وہ جو خوفِ خدا نہیں رکھتا ڈر نہیں ہے مجھے اب آندھی کا میں کوئی بھی دیا نہیں رکھتا ایک مدت ہوئی ہے سائل کو لب پہ کوئی صدا نہیں رکھتا بے وفائی کرو کہ اب دل بھی...
  15. نوید ناظم

    منافقت

    کسی بھی انسان کا عقیدہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ و ہ انسان اپنی زندگی اس عقیدے کے مطابق گزارے۔ کوئی بھی آدمی کسی عقیدے کو اپنانے سے پہلے اس کے ضابطوں سے آزاد ہوتا ہے مگر ایک عقیدہ اختیارکرنے کے بعد اس کے تقاضوں کو نہ نبھانا ایک انتہائی کمزور عمل ہے۔ بقول حضرت واصف علی واصفؒ "عقیدے اور عمل کے...
  16. نوید ناظم

    برائے اصلاح(بحرِ رمل)

    آ گیا آپ کے ہاتھوں میں خود دل کو سینے سے نکالا تو نہیں آپ کی وجہ سے میں بھی چپ ہوں بات کو میں نے اچھالا تو نہیں چھوڑ کر ہی نہ کبھی جائے غم اس قدر شوق سے پالا تو نہیں بے وفائی پہ یونہی بات کی ہے آپ کا اس میں حوالہ تو نہیں جب اندھیرے میں مجھے ڈال دیا پھر تسلی کی، اجالا تو نہیں رند دعوے تو بڑے...
  17. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن)

    چھبتے ہیں جگر میں پھر آزار تو باقی ہیں چاہت کے ابھی دل میں آثار تو باقی ہیں بس ہم کو اٹھایا ہے محفل سے ستم گر نے اُس بزم میں خود دیکھو اغیار تو باقی ہیں میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار...
  18. نوید ناظم

    برائے اصلاح ( مفعولن فاعلن فعولن)

    لب پر سانس آخری رکی ہے دل کو پھر بھی تِری پڑی ہے خوابوں پر جم گئی ہے کائی ہر دم آنکھوں میں اک نمی ہے آ جاؤ پھر سے کھیلنے کو سینے میں اب بھی دل وہی ہے بس اک ہوّا تھا ہجر کی شب آ کر دیکھو، گزر گئی ہے اک وہ، خوش ہے بچھڑ کے مجھ سے اک میں، جاں پر بنی ہوئی ہے اس پر کچھ پھول ہی چڑھا دو اک خواہش...
  19. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    ہم جو مر کے اُس گلی تک آ گئے یوں سمجھ لو زندگی تک آ گئے محو ہے سورج بس اپنے آپ میں اور اندھیرے روشنی تک آ گئے اُس بتِ بیداد ہی کا فیض ہے ہم خدا کی بندگی تک آ گئے قہقہہ اک غم کا ہونا چاہیے درد اب میری ہنسی تک آ گئے اے خدا اُن کے ستم کی خیر ہو کیا وہ بھی چارہ گری تک آ گئے؟ تھام لی انگلی جُنوں...
  20. نوید ناظم

    اُن کے لیے جو سفر پر نکلے ہیں۔۔۔

    انسان دنیا کو نہیں بدل سکتا مگر اپنا زاویہءِ نگاہ ضرور بدل سکتا ہے. ساری دنیا اچھی نہیں ہے' مگر ساری دنیا بُری بھی نہیں ہے۔ اصل میں انسان کا اپنا مزاج اور رجحان بھی ایک نتیجہ مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ برائی سے بُری چیز بُرائی کی طرف رجحان ہے- آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ساری دنیا پھولوں سے بھر جائے اور نہ...
Top