نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    نام

    ہر نام کی ایک تاثیر ہوتی ہے ۔ اچھا نام اچھی کیفیت مرتب کرتا ہے تو برا نام کیفیت شکن ہوتا ہے۔ کائنات میں شاید ہی کوئی شے ایسی ہو کہ جس کا کوئی نام نہ ہو، ورنہ خالق سے لے کر مخلوق تک سبھی نام رکھتے ہیں۔ نام صفت کے حوالے سے بھی شہرت پا سکتا ہے اور ذات کے حوالے سے بھی۔ مگر کچھ نام ایسے بھی ہوتے ہیں...
  2. نوید ناظم

    بے بسی

    انسان زندگی سے بے بسی نکالنا چاہتا ہے مگرکیا بے بسی ہے کہ یہ اسے اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتا۔ یہ بڑا سوچ سمجھ کر دوست بناتا ہے مگر دوست ہی دھوکا دے جاتا ہے اور اپنی عقل کے ترانے گانے والا انسان بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی آدمی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے دشمن ہوں مگر پھر بھی کہیں نہ...
  3. نوید ناظم

    کچھ تو لکھا تھا ہم نے مٹی پر (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

    رات صحرا نصیب خوابوں میں گھر بناتے رہے ہیں پانی پر رات پھر یاد آ گئی اُس کی رات یوں تو گزر گئی تھی، پر! دل وفا کا ارادہ رکھتا تھا اُس نے جانچا نہیں کسوٹی پر پھر ہوا لے گئی اُڑا کر ساتھ کچھ تو لکھا تھا ہم نے مٹی پر ہجر آخر نصیب ٹھہرا ہے چڑھ گیا نا یہ دل بھی سولی پر کس جگہ لائی زندگی دل کو...
  4. نوید ناظم

    احساس

    انسان کے پیدا ہونے کا دن وہ ہے جس دن اس کے اندر احساس پیدا ہوتا ہے۔ احساس سے محرومی دنیا کی سب سے بڑی محرومیوں میں سے ایک ہے۔ وہ منظر جنھیں ظاہری آنکھ نہ دیکھ سکے انھیں صرف احساس کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ زندگی کی اساس اصل میں احساس پر قائم ہے۔ بے حسی، انسان اور انسانیت' دونوں کی دشمن ہے۔ بے...
  5. نوید ناظم

    حضرتِ غالب سے معافی طلب کرنے کے بعد...

    ہم بھلا رمضان میں اس چاٹ کو کھائیں گے کیا ریٹ پھل کے چاند دِکھتے ہی نہ بڑھ جائیں گے کیا وہ بھی لینے کو سموسے جا رہے ہیں شوق سے اب جو قیمت ہے وہاں پر دیکھیے لائیں گے کیا "بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک" ہم کہیں گے چاٹ دو اور آپ فرمائیں گے کیا ہم تو پی جاتے ہیں بیگم کا اشارہ دیکھ کر ہیں...
  6. نوید ناظم

    نثر پارے

    اپنے مقصد سے بے خبر آدمی ہر بات پر تنقید کر سکتا ہے، اُس کے لیے ہر موضوع ایک ' ڈسکشن' ہے. مگر وہ انسان جس کے پاس جینے کا جواز ہو، جس کے پاس کوئی مقصد ہو، وہ یہ سب نہیں کر سکتا...وقت محدود ہے. آن گراونڈ کھیلتا کھلاڑی۔۔۔۔۔۔ تماشائیوں سے الجھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان اپنے رویے سے...
  7. نوید ناظم

    ہم نے بھی کمال کر رکھا تھا (مفعول مفاعلن فعولن)

    جو دل کو سنبھال کر رکھا تھا ہم نے بھی کمال کر رکھا تھا اللہ عجیب دل تھا جس نے جینا بھی وبال کر رکھا تھا کیوں مجھ کو پھنسا لیا ہے اس میں کیوں زلف کو جال کر رکھا تھا اِس ہجر سے موت ہی بھلی ہے اِس نے تو نڈھال کر رکھا تھا ہر لمحہ تمھی کو سوچتے تھے اور لمحہ بھی سال کر رکھا تھا یہ سانس کا رشتہ ہم...
  8. نوید ناظم

    یہ آسماں زمین پر اتار کر تو دیکھیے ( مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن)

    اسے بھی امتحان سے گزار کر تو دیکھیے یہ آسماں زمین پر اتار کر تو دیکھیے الجھ گیا ہے یہ بھی آپ ہی کی زلف میں کہیں ذرا مِرے نصیب کو سنوار کر تو دیکھیے یقین کیجئے کہ زندگی کا لطف کچھ نہیں یہ جان آپ بھی کسی پہ وار کر تو دیکھیے جناب کے ہر اک ستم کی خیر ہو خدا کرے یہ زخم جو دیے ہیں یہ نکھار کر تو...
  9. نوید ناظم

    دور کے ڈھول سہانے

    یہ کائنات بڑی وسیع ہے۔۔۔۔ اتنی کہ ہماری سوچ کی وسعتیں بھی دم توڑ جائیں۔ یہاں رنگ رنگ کے میلے ہیں اور ہر میلے کا اپنا اپنا رنگ ہے۔ کتنے محقق آ چکے مگر تحقیق جاری ہے۔۔۔ وقت' دریا کے پانی کی طرح رواں ہے اور ہم اس کے اندر بہتے جا رہے ہیں۔ ہر دن اک نئی شام لے کر آتا ہے اور ہر رات ایک نئی صبح کو جنم...
  10. نوید ناظم

    مجنوں نظر آئے کوئی تو پتھروں سے ماریے (مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن)

    لو دیکھ لو وہ روشنی سے لطف اٹھانے کے لیے کس طرح آ جاتے ہیں میرا گھر جلانے کے لیے مجنوں نظر آئے کوئی تو پتھروں سے ماریے گویا یہ بھی اک کھیل ہے اب تو زمانے کے لیے اس بات پر تو اور بھی ناراض ہو جاتے ہیں وہ جو ہم چلے جائیں کبھی اُن کو منانے کے لیے آواز مت دیجے کسی کو ڈوب جائیں بس یہاں آتا نہیں اب...
  11. نوید ناظم

    مفروضہ

    مفروضہ ہوتا نہیں، قائم کیا جاتا ہے۔ مختلف افراد مختلف مفروضے قائم کرتے رہتے ہیں. کئی لوگ حقیقت کو مفروضہ سمجھتے ہیں اور کچھ اپنے مفروضے کو حقیقت خیال کرتے ہیں۔ زندگی کے ساتھ ساتھ کئی مفروضے چلتے رہتے ہیں اور زندگی کی رونق بحال رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہوتا ہے۔...
  12. نوید ناظم

    بھُلا دے اُس کو یہ آساں نہیں ہے (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

    بھُلا دے اُس کو یہ آساں نہیں ہے کہ دل اتنا بھی اب ناداں نہیں ہے چمک اس میں رہے کیوں شام کے بعد یہ سورج ہے رخِ جاناں نہیں ہے مِلا جو غم' مقدر میں لکھا تھا یہ مجھ پر آپ کا احساں نہیں ہے مسیحا ہے اگر کوئی مجھے کیا مِرے تو درد کا درماں نہیں ہے جو پوچھیں کیا نہیں پاسِ وفا بھی؟ تو کہتے ہیں ہمیں...
  13. نوید ناظم

    اندھیری شب کی قسمت میں سحر ہونے لگی ہے کیا

    (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن) مِرے غم کی اُسے بھی اب خبر ہونے لگی ہے کیا اندھیری شب کی قسمت میں سحر ہونے لگی ہے کیا مِرے دل میں اُتر جاتی ہے اب یہ بھی سرِ محفل مِری تنہائی اس حد تک نڈر ہونے لگی ہے کیا سنا ہے بِک رہا ہے اب ادب بازار کے اندر مِرے اللہ دولت بھی ہنر ہونے لگی ہے کیا نظر آتا...
  14. نوید ناظم

    حادثہ

    حادثات زندگی میں ہوا تو کرتے ہیں مگر کئی حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ سب سے خطرناک حادثہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان کا ظاہر تو سلامت رہے مگر باطن ریزہ ریزہ ہو جائے۔ حادثہ ظاہری بھی ہو سکتا ہے اور باطنی بھی۔ محبوب کا آنکھ سے اوجھل ہو جانا کسی حادثے سے کم نہیں،...
  15. نوید ناظم

    مِرے پاس اب ان کہی کچھ نہیں (فعولن فعولن فعولن فعل)

    اگر لاکھ ہو دلکشی کچھ نہیں بِنا آپ کے زندگی کچھ نہیں ہم اُن کی گلی میں بھلا کیوں گئے ارے بات یہ ہے کہ جی' کچھ نہیں! اگر دل میں کچھ ہو توہو آپ کے لبوں پر تو ہے پھر وہی '' کچھ نہیں'' بتنگڑ بنانا تھا بس غیر کو اجی اصل میں بات تھی کچھ نہیں مِرا غم تو لفظوں میں ڈھل بھی گیا مِرے پاس اب ان کہی کچھ...
  16. نوید ناظم

    اپنے اپنے دکھ نے لوکو

    اپنے اپنے دکھ نے لوکو اپنے اپنے غم کوئی کسے دا ہو نئیں سکدا آخر دم دا دم سانوں اکو تیری یاد تینوں لکھاں کم برفاں ورگے خواب سی یارو اکھاں وچ گئے جم پہاڑ ہجر دا بھارا جگ توں ساڈے اُتے ڈگا دھم
  17. نوید ناظم

    اختلاف

    اختلاف' کسی گفتگو پر بوجھ کا نام نہیں ہے' بلکہ یہ گفتگو کے حُسن کا نام ہے۔۔۔۔۔ ضروری ہے کہ صاحبِ رائے' رائے دینے سے پہلے اختلافِ رائے کا حق دے۔ علمی اجارا داری کسی صورت بھی مناسب نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک انسان رائے دینے کا حق رکھتا ہے اُسی طرح دوسرا انسان اُس رائے سے اختلاف کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔...
  18. نوید ناظم

    میں اُسے بھول جاؤں ارادہ تو ہے (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    میں اُسے بھول جاؤں ارادہ تو ہے کر سکوں یا نہیں خیر، سوچا تو ہے دل تِری اُور چلتا ہے پر میں نہیں خود مِرے دل سے میرا بھی جھگڑا تو ہے پوچھتا ہے مِرے دل کی تنہائی کا لاکھ کہہ لوں نہیں تھا، اکیلا تو ہے وہ مِرے زخم کو دیکھتا ہی نہیں بس ہر اک سے کہے ہے کہ اچھا تو ہے جان لب پر رکی ہے تو رکتی رہے...
  19. نوید ناظم

    اپنا تو بن!

    انسان اپنے لیے بہت کچھ کرتا ہے ، بس اپنے ساتھ تعاون نہیں کرتا۔ یہ خواہشات کا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیتا ہے اور بعد میں دکھ کی زمین میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ زندگی کو اگر سفر کہہ لیا جائے تو سفر میں جتنا کم سامان ہو گا سفر اُتنا ہی آسان ہو گا۔ مگر ہم جمع کرنے میں لگے ہیں اور اس کے لیے ضرب کھاتے...
  20. نوید ناظم

    میرے بھی دردِ دل کا سامان ہو چکا ہے ( مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن)

    میرے بھی دردِ دل کا سامان ہو چکا ہے شاید کہ وہ اب آئے، امکان ہو چکا ہے مانا کہ ہجر میں مجھ کو ہے ملا خسارہ اس میں مگر ترا بھی نقصان ہو چکا ہے وہ ہنس نہیں رہا تھا حالت پہ آج میری گویا کہ مجھ سے اب وہ انجان ہو چکا ہے ہاں تیری بے وفائی پر کچھ گلہ تھا پہلے مدت ہوئی کہ اب اطمینان ہو چکا ہے کیا...
Top