نتائج تلاش

  1. پ

    فیض غزل - رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رھے

    رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رھے شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رھے خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رھے اسی متاع پہ ہم روزگار کرتے رھے نہیں شکایت ہجراں کہ اس وسیلے سے ہم ان سے رشتہ دل استوار کرتے رھے وہ دن کہ کوئی بھی جب وجہ انتظار نہ تھی ہم ان میں تیرا سوا انتظار کرتے رھے ھم...
  2. پ

    فیض نظم - فرش نومیدی دیدار - فیض احمد فیض

    دیکھنے کی تو کسے تاب ھے لیکن اب تک جب بھی اس راہ سے سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک ٹوکتی ھے کہ وہ دروازہ کھلا ھے اب بھی اور اس صحن میں ھر سو یونہی پہلے کی طرح فرش نومیدی دیدار بچھا ھے اب بھی اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح ہاتھ پھیلائے ھوئے بیٹھی ھے فریاد کناں دل یہ کہتا ھے کہ کہیں...
  3. پ

    فیض نظم - جرس گل کی صدا (فیض احمد)

    اس ہوس میں کہ پکارے جرس گل کی صدا دشت و صحرا میں صبا پھرتی ھے یوں آوارہ جس طرح پھرتے ھیں ہم اہل جنوں آوارہ ہم پہ وارفتگی ھوش کی تہمت نہ دھرو ہم کہ رماز رموز غم پنہانی ھیں اپنی گردن پہ بھی ھے رشتہ فگن ھم بھی شوق رہ دلدار کے زندانی ھیں جب بھی ابروئے در یار نے ارشاد کیا جس...
  4. پ

    حذر کرو مرے تن سے

    سجے تو کیسے سجے قتل عام کا میلہ کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا مرے نزار بدن میں لہو ھی کتنا ھے چراغ ھو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے نہ اس سے آگ ھی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے مرے فگار بدن میں لہو ھی کتنا ھے مگر وہ زہر ہلاہل بھرا ھے نس نس میں جسے بھی چھیدو ھر اک بوند قہر افعی ھے...
  5. پ

    فیض نظم - لہو کا سراغ ( فیض احمد)

    کہیں نہیں ھے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں نہ سرخی لب خنجر نہ رنگ نوک سناں نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی سراغ کہیں نہیں ھے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوںبہا دیتے نہ دیں کی نذر کہ بیعانہ جزا دیتے نہ رزم گاہ میں برسا کہ...
  6. پ

    فراز نظم - تخلیق ( احمد فراز)

    درد کی آگ بجھا دو کہ ابھی وقت نہیں زخم دل جاگ سکے ، نشتر غم رقص کرے جو بھی سانسوں میں گھلا ھے اسے عریاں نہ کرو چپ بھی شعلہ ھے مگر کوئی نہ الزام دھرے ا یسے الزام کہ خود اپنے تراشے ھوئے بت جذبہ کاوش خالق کو نگوں سار کرے مو قلم حلقہ ابرو کو بنا دے خنجر لفظ نوحوں میں رقم مدح رخ...
  7. پ

    فراز غزل - نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے ( احمد فراز)

    نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے کہ اب تلک نہیں نظر آئے ھیں لوگ جب کے گئے سنے گا کون تری بے وفائیوں کا گلہ یہی ھے رسم زمانہ تو ھم بھی اب کے گئے مگر کسی نے ھمیں ھمسفر نہیں جانا یہ اور بات کہ ھم ساتھ ساتھ سب کے گئے اب آئے ھو تو یہاں کیا ھے دیکھنے کیلیے یہ شہر کب سے ھے ویراں وہ...
  8. پ

    فراز نظم - سچ کا زہر ( احمد فراز)

    تجھے خبر بھی نہیں کہ تیری اداس ادھوری محبتوں کی کہانیاں جو بڑی کشادہ دلی سے ہنس ہنس کے سن رہا تھا وہ شخص تیری صداقتوں پر فریفتہ باوفا ثابت قدم کہ جس کی جبیں پہ ظالم رقابتوں کی جلن سے کوئی شکن نہ آئی وہ ضبط کی کربناک شدت سے دل ھی دل میں خموش چپ چاپ مر گیا ھے
  9. پ

    فراز غزل - عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی ( احمد فراز)

    عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی بہت ملول تھا میں ،اداس تھا وہ بھی کسی کے شہر میں کی گفتگو ھواؤں سے یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے مگر گماں تھا یہ بھی ، قیاس تھا وہ بھی کہاں اب غم دنیا کہ اب غم جاں وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ راس تھا...
  10. پ

    فراز نظم - خواب مرتے نہیں ( آحمد فراز)

    خواب مرتے نہیں خواب دل ھیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو ریزہ ریزہ ھوئے تو بکھر جائیں گے جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے خواب مرتے نہیں خواب تو روشنی ھیں نوا ھیں ھوا ھیں جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں روشنی اور نوا اور ھوا کے علم مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے...
  11. پ

    محسن نقوی نظم - وہ میں نہیں ھوں (محسن نقوی)

    وہ میں نہیں ھوں وہ آنکھوں آنکھوں میں بولتی ھے تو اپنے لہجے میں کچی کلیوں کی نکہتیں ادھ کھلے گلابوں کا رس خنک رت میں شہد کی موج گھولتی ھے وہ زیرِ لب مسکرا رہی ھو تو ایسے لگتا ھے جیسے شام و سحر گلے مل کے ان سنی لے میں گائیں صبا کی زلفیں کھلیں ستاروں کے تر سانسوں میں جھنجھنائیں وہ...
  12. پ

    محسن نقوی نظم - مجھے معلوم ھے سب کچھ(محسن نقوی)

    مجھے معلوم ھے سب کچھ کہ وہ حرفِ وفا سے اجنبی ھے وہ اپنی ذات سے ہٹ کر بہت کم سوچتی ھے وہ جب بھی آئینہ دیکھے تو بس اپنے ھی خال و خد کے تیور دیکھتی ھے اسے اپنے بدن کے زاویے ،قوسیں ، مثلث ، مستطیلیں بازوؤں کی دسترس میں رقص کرتی خواہشوں کی سب اڑانیں قیمتی لگتی ھیں سیم و زر کے پوشیدہ خزانوں...
  13. پ

    غزل - ترے شہر میں یہ کمال ھونا تھا ھو گیا (احمد فرید)

    ترے شہر میں یہ کمال ھونا تھا ھو گیا میرا دل غموں سے نڈھال ھونا تھا ھو گیا کسی مصلحت کو عروج ملنا تھا مل گیا کوئی عشق رو بہ زوال ھونا تھا ھو گیا کوئی درد ملنا تھا مل چکا ھے جو دیر سے کوئی چہرہ خواب و خیال ھونا تھا ھو گیا تیرے وصل میں وہ جو لمحے کٹنے تھے کٹ گئے وہ جو غم سے رشتہ بحال ھونا...
  14. پ

    غزل-یہ ھم جو اپنے ھی مدھم دل کی صدا سے آگے نکل گئے ھیں(احمد فرید)

    یہ ھم جو اپنے ھی مدھم دل کی صدا سے آگے نکل گئے ھیں سماعتیں کھو گئیں ھیں یا پھر ھوا سے آگے نکل گئے ھیں جلی ھوئی سرد انگلیوں سے صنم کدے کر دئیے ھیں روشن خدا کے کچھ باکمال بندے خدا سے آگے نکل گئے ھیں ہم اب کسی کی عظیم چا ہت کے سرخ رستے پر گامزن ھیں مقام اجر و ثواب گزرا سزا سے آگے نکل گئے ھیں...
  15. پ

    غزل -یہ جو اک سیل فنا ھے مرے پیچھے پیچھے (احمد فرید)

    یہ جو اک سیل فنا ھے مرے پیچھے پیچھے مرے ھونے کی سزا ھے مرے پیچھے آگے آگے ھے مرے دل کے چٹخنے کی صدا اور مری گرد انا ھے مرے پیچھے پیچھے زندگی تھک کے کسی موڑ پر رکتی ھی نہیں کب سے یہ آبلہ پا ھے مرے پیچھے پیچھے اپنا سایہ تو میں دریا میں بہا آیا تھا کون پھر بھاگ رہا ھے مرے پیچھے پیچھے پاؤں پر...
  16. پ

    مجید امجد کون دیکھے گا-------- (مجید امجد)

    جو دن کبھی نہیں بیتا----- کون دیکھے گا انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا اس ایک دن کو---- جو سورج کی راکھ میں غلطاں انہی دنوں کی تہوں میں ھے----- کون دیکھے گا اس ایک دن کو--- جو ھے عمر کے زوال کا دن انہی دنوں میں نمو یاب کون دیکھے گا میں روز ادھر سے گزرتا ھوں کون دیکھتا ھے میں جب...
  17. پ

    فیض جس روز قضا آئے گی - فیض احمد فیض

    کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی شاید اس طرح کہ جس طور کبھی اولِ شب بے طلب پہلے پہل مرحمتِ بوسہء لب جس سے کھلنے لگیں ھر سمت طلسمات کے در اور کہیں دور سے انجان گلابوں کی بہار یک بیک سینہء مہتا ب کو تڑپانے لگے شاید اسطرح کہ جس طور کبھی آخرِ شب نیم وا کلیوں سے سر سبز سحر یک بیک حجرہء محبوب میں...
  18. پ

    چند پیاسی تحریریں

    ایک وقت ایسا بھی آتا ھے جب انسان کو خود اپنی ذات سے آشنائی کی ضرورت پڑتی ھے ۔ اور یہ وقت بہت کٹھن اور صبر آزما ھوتا ھے ۔ کہ انسان کو خود اپنی ، اپنی ضروریات اور اپنے مقام کا تعین کرنا ھوتا ھے ۔ کہ خود اپنے لیے کتنا ضروری ھے ۔ اس وقت سب دلیلیں اور دعوے ایک طرف رکھ کر انسان خود سے ریا کاری برتے...
  19. پ

    ابن انشا نظم- ابنِ انشا

    یہ سرائے ہے، یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو یاں تو آتے ہیں مسافر، سو چلے جاتے ہیں ہاں یہی نام تھا، کچھ ایسا ہی چہرہ مہرا یاد پڑتا ہے کہ آیا تھا مسافر کوئی سونے آنگن میں پھرا کرتا تھا تنہا تنہا کتنی گہری تھی نگاہوں کی اداسی اس کی لوگ کہتے تھے کہ ہوگا کوئی آسیب زدہ ہم نے ایسی بھی کوئی بات نہ اس...
  20. پ

    فراز نظم- احمد فراز

    بارہا مجھ سے میرے دل نے کہا اے شعبدہ گر تو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ھے کبھی اس حسنِ دلآرا کی بھی تصویر بنا جو تیری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ھے بارہا میرے دل نے یہ آواز سنی اور چاہا مان لوں مجھ سے جو وجدان میرا کہتا ھے مگر کچھ اس عجز سے ھارا میرے فن کا جادو چاند کو چاند سے بڑھکر...
Top