نتائج تلاش

  1. پ

    غزل - ہمیں دیکھنے سے وہ جیتا تھا اور ہم اس پہ مرتے تھے -شیخ قلندر بخش جرات

    ہمیں دیکھنے سے وہ جیتا تھا اور ہم اس پہ مرتے تھے یہی راتیں تھیں اور باتیں تھیں وہ دن کیا گزرتے تھے وہ سوزِ دل سے بھر لاتا تھا اشک سرخ آنکھوں میں اگر ہم جی کی بے چینی سے آہِ سرد بھرتے تھے کسی دھڑکے سے روتے تھے جو باہم وصل کی شب کو وہ ہم کو منع کرتا تھا ہم اس کو منع کرتے تھے ملتی رہتی...
  2. پ

    شہزاد احمد غزل - چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی - شہزاد احمد

    چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو ابھی محسوس کئے جاؤ...
  3. پ

    غزل - دردِ دل، پاسِ وفا، جذبہء ایماں ہونا -پنڈت برج نارائن

    دردِ دل، پاسِ وفا، جذبہء ایماں ہونا آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب موت کیا ہے، انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا ہم کو منظور ہے اے دیدہء وحدت آگیں ایک غنچہ میں تماشائے گلستاں ہونا سر میں سودا نہ رہا پاؤں میں بیڑی نہ رہی میری تقدیر میں تھا بے سروساماں...
  4. پ

    غزل - آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح - مرتضٰی برلاس بیگ

    محترم معذرت کہ مجھے اس بات کا علم نہ تھا ۔
  5. پ

    غزل - آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح - مرتضٰی برلاس بیگ

    آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی میں ترے دل میں...
  6. پ

    غزل - چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری - محسن بھوپالی

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری میں نے دل کی بات رکھی اور تونے دنیا والوں کی میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری ذات کدے میں پہروں باتیں اور...
  7. پ

    قتیل شفائی غزل - پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے -قتیل شفائی

    پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے پہلے مزاجِ راہ گزر جان جائیے پھر گردِ راہ جو بھی کہے مان جائیے کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں میری سنیں تو دل کا کہا مان جائیے اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے شاید حضور سے کوئی نسبت...
  8. پ

    قتیل شفائی غزل -ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے - قتیل شفائی

    ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے ہم جب اس کے سحر سے نکلے سب راستے ساتھ لائے تھے جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات پیار کی باتیں کرتے کرتے اس کے نین بھر آئے تھے میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی جس دن اپنے جوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے اس نے کتنے...
  9. پ

    سلیم کوثر غزل - تم نے سچ بولنے کی جرات کی - سلیم کوثر

    تم نے سچ بولنے کی جرات کی یہ بھی توہین ہے عدالت کی منزلیں راستوں کی دھول ہوئیں پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی اپنا زادِ سفر بھی چھوڑ گئے جانے والوں نے کتنی عجلت کی میں جہاں قتل ہو رہا ہوں وہاں میرے اجداد نے حکومت کی پہلے مجھ سے جدا ہوا اور پھر عکس نے آئینے سے ہجرت کی میری آنکھوں...
  10. پ

    نظم - نئی رت - حسن رضوی

    نئی رت وہ جو بکھرے بکھرے تھے قافلے وہ جو دربدر کے تھے فاصلے انہی قافلوں کے غبار میں انہی فاصلوں کے خمار میں کئی جلتے بجھتے چراغ تھے نئے زخم تھے نئے داغ تھے نہ شبوں میں دل کو قرار تھا نہ دنوں کا چہرہ بہار تھا نہ تھیں چاند، چاند وہ صورتیں سبھی ماند ماند سی مورتیں جو تھیں گرد ہی میں...
  11. پ

    مجید امجد نظم - حرفِ اول - مجید امجد

    حرفِ اول دردوں کے اس کوہِ گراں سے میں نے تراشی ، نظم کے ایوں کی اک اک سل اک اک سوچ کی حیراں مورت۔۔۔۔۔ گرچہ قلم کی نوک سے ٹپکے کتنے ترانے کتنے فسانے لاکھ مسائل دل میں رہی سب دل کی حکائت بیس برس کی خواہشِ پیہم سوچتے دن اور جاگتی راتیں ان کا حاصل ایک یہی اظہار کی حسرت!
  12. پ

    مجید امجد منٹو - از مجید امجد

    نظم -منٹو ۔مجید امجد منٹو میں نے اس کو دیکھا ہے اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں پھیلتی پھیلتی بھیڑ کے اندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں جب وہ خالی بوتل پھینک کر کہتا ہے: " دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے-" دنیا اس کو گھورتی ہے شورِ سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے انگاروں بھری...
  13. پ

    ابن انشا یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں! - ابن انشا

    یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں! یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں ہیں لاکھوں روگ زمانے میں ، کیوں عشق ہے رسوا بیچارا ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی ، انسان کو رکھتیں دکھیارا ہاں بے کل بےکل رہتا ہے ، ہو پیت میں جس نے جی ہارا پر شام...
  14. پ

    فراز غزل -کب تک درد کے تحفے بانٹو خون جگر سوغات کرو - احمد فراز

    غزل نذرِ حبیب جالب کب تک درد کے تحفے بانٹو خون جگر سوغات کرو "جالب ہن گل مک گئ اے" ہن جان نوں ہی خیرات کرو کیسے کیسے دشمن جاں اب پرسش حال کو آئے ہیں ان کے بڑے احسان ہیں تم پر اٹھو تسلیمات کرو تم تو ازل کے دیوانے اور دیوانوں کا شیوہ ہے اپنے گھر کو آگ لگا کر روشن شہر کی رات کرو اے بے...
  15. پ

    ناصر کاظمی گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ - ناصر کاظمی

    غزل - گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ - ناصر کاظمی گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر ستارہء شام بن کے آیا ببرنگ خواب سحر گیا وہ خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر...
  16. پ

    حبیب جالب غزل - میر و غالب بنے یگانہ بنے - حبیب جالب

    میر و غالب بنے یگانہ بنے آدمی اے خدا خدا نہ بنے موت کی دسترس میں کب سے ہیں زندگی کا کوئی بہانہ بنے اپنا شاید یہی تھا جرم اے دوست باوفا بن کے بے وفا نہ بنے ہم پہ اک اعتراض یہ بھی ہے بے نوا ہو کے بے نوا نہ بنے یہ بھی اپنا قصور کیا کم ہے کسی قاتل کے ہمنوا نہ بنے کیا گلہ سنگدل...
  17. پ

    منظر بھوپالی غزل - ستمگروں کے ستم کی اڑان کچھ کم ہے - منظر بھوپالی

    غزل ستمگروں کے ستم کی اڑان کچھ کم ہے ابھی زمین کے لیے آسمان کچھ کم ہے جو اس خیال کو بھولے تو مارے جاؤ گے کہ اپنی سمت قیامت کا دھیان کچھ کم ہے ہمارے شہر میں خیر و عافیت ہے مگر یہی کمی ہے کہ امن و امان کچھ کم ہے بنا رہا ہے فلک بھی عذاب میرے لیے تیری زمین پہ کیا امتحان کچھ کم ہے...
  18. پ

    آج کا شعر - 3

    ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ھے عباس تابش
  19. پ

    ذوق غزل - کون سا ہمدم ہے تیرے عاشق بے دم کے پاس - شیخ محمد ابراہیم ذوق

    محترم ہو سکتا ہے کہ مجھ سے ٹائپنگ میں کوتاہی ہو گئی ہو لیکن میں نے دیوان سے ہی یہ غزل ٹائپ کی ہے ۔ اگر آپ نظر ثانی فرما دیں تو نوازش ہو گی ۔
  20. پ

    اکبر الہ آبادی نظم - برقِ کلیسا - اکبر الٰہ آبادی

    برقِ کلیسا ( یہ نظم 1907 میں لکھی گئی تھی) رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار ہائے وہ حسن، وہ شوخی، وہ نزاکت، وہ ابھار زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید قدِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہگار کریں گال وہ صبحِ درخشاں کہ ملک پیار کریں گرم تقریر جسے...
Top