اے مرے کبرہا------! ( محسن نقوی)
اے مرے کبرہا------!
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!!
میرے ادراک کی سرحدوں سے پرے
میرے وجدان کی سلطنت سے ادھر
تیری پہچان کا اولین مرحلہ!
میری مٹی کے سب ذائقوں سے جدا!!
تیری چاہت کی خوشبو کا پہلا سفر!!
میری منزل ؟
تیری رہگزر کی خبر!
میرا حاصل ؟
تیری...
کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھر گئے جو کربلا میں شاہِؑ شہیداں سے پھر گئے
گویا یہود موسیؑٔ عمراںؑ سے پھر گئے نصرانیوں نے حضرتِ عیسیٰؑ سے کی دغا
کیا روسیاہ دیو سلیماںؑ سے پھر گئے امت کے سرکشوں نے نہ کی نوحؑ سے وفا
مرتد ہوئے کہ قبلۂ ایماں سے پھر گئے کافر ہوئے کہ کعبۂ دیں کو کیا...
تو نے پیدا کیا ہے مجھے اے خدا
کوئی خالق نہیں میرا، تیرے سوا
شکر کس کس کا انسان سے ہو ادا
نعمتیں تو نے بخشی ہیں بے انتہا
آسماں پر ستارے چمکتے ہوئے
تیری قدرت کا دیتے ہیں ہم کو پتہ
تو ہی ہمدرد ہے، تو ہی غم خوار ہے
سب کا مشکل کشا، سب کا حاجت روا
تیری رحمت کا سایہ نہ ہوتا اگر
میرا...
تند مئے اور ايسے کمسن کے ليے
ساقيا! ہلکي سي لا ان کے ليے
ہے جواني خود جواني کا سنگار
سادگي گہنا ہے اس سن کے ليے
ساري دنيا کے ہيں وہ ميرے سوا
ميں نے دنيا چھوڑ دي جن کے ليے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے ليے
باغباں! کلياں ہوں ہلکے رنگ کي
بھيجني ہيں ايک...
ان شوخ حسينوں پہ مائل نہيں ہوتا
کچھ اور بلا ھوتی وہ دل نہيں ہوتا
کچھ وصل کے وعدے سے بھی حاصل نہيں ہوتا
خوش اب تو خوشی سے بھی ميرا دل نہيں ہوتا
گردن تن بسمل سے جدا ہوگئی کب سے
گردن سے جدا خنجر قاتل نہيں ہوتا
دنيا ميں پري زاد دئيے خلد ميں حوريں
بندوں سے وہ اپنے کبھي غافل نہيں ہوتا...
وصل ھو جائے يہيں حشر ميں کيا رکھا ھے
آج کي بات کو کيوں کل پہ اٹھا رکہا ھے
محتسب پوچھ نہ تو شيشے ميں کيا رکھا ھے
پارسائي کا لہو اس ميں بھرا رکھا ھے
کہتے ھيں آئے جواني تو يہ چوري نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ھے
ياں گھيرے ھوئے ھے مجھ کو ہاں ، کچھ کچھ
آسرا تيري لگاوٹ نے لگا...
دامنوں کا پتہ ھے نہ گريبانوں کا
حشر کہتے ھيں جسے شہر ھے عريانوں کا
گھر ھے اللہ کاگھر بے سر و سامانوں کا
پاسبانوں کا يہاں کام نہ دربانوں کا
گور کسریٰ و فريدوں پہ جو پہنچوں پوچھوں
تم يہاں سوتے ھو کيا حال ھے ايوانوں کا
کيا لکھيں يار کو نامہ کہ نقاہت سے يہاں
فاصلہ خامہ و کاغذ ميں ھے...
ايک دل ھم دم مرے پہلو سے کيا جاتا رہا
سب تڑپنے بلبلانے کا مزہ جاتا رہا
سب کرشمے تھے جواني کے ، جواني کيا گئي
وہ امنگيں مٹ گئيں وہ ولولہ جاتا رہا
آنے والا جانے والا، بے کسي ميں کون تھا
ہاں مگر اک دم غريب، آتا رھا جاتا رہا
مرگيا ميں جب ، تو ظالم نے کہا کہ افسوس آج
ھائے ظالم ھائے ظالم...
اس کي حسرت ھے ، جسے دل سے مٹا بھي نہ سکوں
ڈھونڈ نے اس کو چلا ھوں جسے پا بھی نہ سکوں
وصل ميں چھيڑ نہ اتنا اسے اے شوق وصال
کہ وہ روٹھے تو کسي طرح منا بھي نہ سکوں
ڈال کر خاک مرے خوں پہ، قاتل نےکہا
کچھ يہ مہندي نہيں ميري کہ چھپا بھي نہ سکوں
کوئي پوچھے تو محبت سے يہ کيا ھے انصاف
وھ مجھے...
پرسش کو مري کون مرے گھر نہيں آتا
تيور نہیں آتے ھيں کہ چکر نہيں آتا
تم لاکھ قسم کھاتے ھو ملنےکي عدو سے
ايمان سے کہ دوں مجھے باور نہيں آتا
ڈرتا ھے کہيں آپ نہ پڑ جائے بلا ميں
کوچے ميں ترے فتنہ محشر نہيں آتا
جو مجھ پر گزرتي ھے کبھي ديکھ لے ظالم
پھر ديکھوں کے رونا تجھے کيو نکر نہيں آتا...
جو کچہ سوجھتي ھے نئي سوجھتي ھے
ميں روتا ھوں، اس کو ھنسي سوجھتي ھے
تمہيں حور اے شيخ جي سوجھتي ھے
مجہے رشک حور اک پري سوجھتي ھے
يہاں تو ميري جان پر بن رھي ھے
تمہيں جان من دل لگي سوجھتي ھے
جو کہتا ھوں ان سے کہ آنکہيں ملاؤ
وھ کہتے ھيں تم کو يہي سوجھتي ھے
يہاں تو ھے آنکھوں ميں...
یہاں جو کلام ہے اس کے متعلق مجھے شک ہے کہ یہ امیر مینائی کا ہے بھی یا نہیں ۔ مہربانی فرماتے ہوئے مجھے اس معاملہ میں رہنمائی کر دیں مشکور ہوں گا ۔
اچھے عيسي ہو مريضوں کا خيال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہيں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں ميں تجھي کو کہ سبھي کچھ مل جائے
سو سوالوں سے يہي ايک...
ریاضِ دہر میں پوچھو نہ میری بربادی
برنگِ بو ادھر آیا ادھر روانہ ہوا
خدا کی راہ میں دینا ہے گھر کا بھر لینا
ادھر دیا ۔ کہ ادھر داخل خزانہ ہوا
قدم حضور کے آئے مرے نصیب کھلے
جوابِ قصرِ سلیماں غریب خانہ ہوا
جب آئی جوش پہ میرے کریم کی رحمت
گرا جو آنکھ سے آنسو ۔ درِ یگانہ ہوا
چنے...
وہ تو سنتا ہی نہیں میں داد خواہی کیا کروں؟
کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں؟
مجھ گدا کو دے نہ تکلیف حکومت اے ہوس!
چار دن کی زندگی میں بادشاہی کیا کروں؟
مجھ کو ساحل تک خدا پہنچائے گا اے ناخدا!
اپنی کشتی کی بیاں تجھ سے تباہی کیا کروں؟
وہ مرے اعمال روز و شب سے واقف ہے امیر
پیش...
انسانِ عزیزِ خاطرِ اہلِ جہاں نہ ہو
وہ مہرباں نہ ہو ۔ تو کوئی مہرباں نہ ہو
پیری میں بھی گیا نہ تغافل ہزار حیف
اتنا بھی کوئی مائلِ خوابِ گراں نہ ہو
آنکھوں سے فائدہ؟ جو نہ دیدار ہو نصیب
حاصل جبیں سے کیا؟ جو ترا آستاں نہ ہو
جانے اگر ۔ کہ چاہِ عدم میں گرائے گا
کوئی سوارِ تو سنِ عمرِ...