نتائج تلاش

  1. پ

    حبیب جالب غزل۔۔ جبیب جالب۔۔اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے

    بڑے عرصے بعد یہ غزل پڑھی اور حقیقت تو یہ ھے کہ پھر پرانے دن یاد آگئے ۔ بہت شکریہ اور آپ کا انتخاب واقعی کمال کا ھے۔
  2. پ

    حبیب جالب نظم۔ حبیب جالب ۔ضابطہ

    بہت خوب مزاحمتی ادب میں شاید ھی کوئی اور شاعر حبیب جالب جیسا حوصلہ مند ھو ۔ بہت خوب انتخاب ھے۔
  3. پ

    آج کا شعر - 3

    وہ جن کا دیں پیرویء کذب و ریا ھے ان کو ہمتِ کفر ملے جراءتِ تحقیق ملے فیض احمد
  4. پ

    غزل - ترے شہر میں یہ کمال ھونا تھا ھو گیا (احمد فرید)

    ترے شہر میں یہ کمال ھونا تھا ھو گیا میرا دل غموں سے نڈھال ھونا تھا ھو گیا کسی مصلحت کو عروج ملنا تھا مل گیا کوئی عشق رو بہ زوال ھونا تھا ھو گیا کوئی درد ملنا تھا مل چکا ھے جو دیر سے کوئی چہرہ خواب و خیال ھونا تھا ھو گیا تیرے وصل میں وہ جو لمحے کٹنے تھے کٹ گئے وہ جو غم سے رشتہ بحال ھونا...
  5. پ

    غزل-یہ ھم جو اپنے ھی مدھم دل کی صدا سے آگے نکل گئے ھیں(احمد فرید)

    یہ ھم جو اپنے ھی مدھم دل کی صدا سے آگے نکل گئے ھیں سماعتیں کھو گئیں ھیں یا پھر ھوا سے آگے نکل گئے ھیں جلی ھوئی سرد انگلیوں سے صنم کدے کر دئیے ھیں روشن خدا کے کچھ باکمال بندے خدا سے آگے نکل گئے ھیں ہم اب کسی کی عظیم چا ہت کے سرخ رستے پر گامزن ھیں مقام اجر و ثواب گزرا سزا سے آگے نکل گئے ھیں...
  6. پ

    غزل -یہ جو اک سیل فنا ھے مرے پیچھے پیچھے (احمد فرید)

    یہ جو اک سیل فنا ھے مرے پیچھے پیچھے مرے ھونے کی سزا ھے مرے پیچھے آگے آگے ھے مرے دل کے چٹخنے کی صدا اور مری گرد انا ھے مرے پیچھے پیچھے زندگی تھک کے کسی موڑ پر رکتی ھی نہیں کب سے یہ آبلہ پا ھے مرے پیچھے پیچھے اپنا سایہ تو میں دریا میں بہا آیا تھا کون پھر بھاگ رہا ھے مرے پیچھے پیچھے پاؤں پر...
  7. پ

    مجید امجد کون دیکھے گا-------- (مجید امجد)

    جو دن کبھی نہیں بیتا----- کون دیکھے گا انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا اس ایک دن کو---- جو سورج کی راکھ میں غلطاں انہی دنوں کی تہوں میں ھے----- کون دیکھے گا اس ایک دن کو--- جو ھے عمر کے زوال کا دن انہی دنوں میں نمو یاب کون دیکھے گا میں روز ادھر سے گزرتا ھوں کون دیکھتا ھے میں جب...
  8. پ

    فیض جس روز قضا آئے گی - فیض احمد فیض

    کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی شاید اس طرح کہ جس طور کبھی اولِ شب بے طلب پہلے پہل مرحمتِ بوسہء لب جس سے کھلنے لگیں ھر سمت طلسمات کے در اور کہیں دور سے انجان گلابوں کی بہار یک بیک سینہء مہتا ب کو تڑپانے لگے شاید اسطرح کہ جس طور کبھی آخرِ شب نیم وا کلیوں سے سر سبز سحر یک بیک حجرہء محبوب میں...
  9. پ

    چند پیاسی تحریریں

    میں اکثر سوچتا ھوں کہ اگر یہ سب کچھ نہ ھوتا- میری مراد یہ سب کچھ سے اور کچھ نہیں صرف احساسات ھیں ۔ کہ یہ احساسات جو ھمیں ہر پل ٹوکتے ھیں ۔ جو ھمارا تنہائی میں اسطرح احتساب کرتے ھیں جیسے کہ ھم ان کے مجرم ھوں ۔ ھم نے ان کو برتنے میں اور ان کے اظہار میں کوتاھی کی ھو ۔ یہ احساسات بھی عجب ودیعت ھے...
  10. پ

    چند پیاسی تحریریں

    میں خوابوں کو آنکھوں میں سجائے پھر رہا ھوں ۔ میرے ھاتھوں میں رنگ ھیں ۔ میرے بدن پر بہاریں ھیں۔ میرے ماتھے پر اجالا ھے ۔ میرے پاؤں میں زمین کی طنابیں ھیں۔ میرے اطراف زمانے کی گردشیں میرا طواف کر رھی ھیں۔ میرے راستے کہکشاں کی گرد سے سجے ھیں ۔ زمان و مکان میری گرفت میں ھیں ۔ میں ایک ادنٰی اور...
  11. پ

    چند پیاسی تحریریں

    یہ لمحات اگرچہ گزر رہے ھیں مگر میرا یقین ھے یہ کہیں محفوظ بھی ھو رہے ھیں ۔ ھمارے وجدان اور سوچوں سے بھی دور کوئی ایسا مقام ھے ضرور جس تک ھماری سوچ کی بھی رسائی ناممکن ھے۔ مگر یہ گزرتے لمحات اور وہ تمام وقت جو ھم نے ایسے صرف کیا جیسے سر سے کوئی بوجھ اتارا ھو ۔ یا ایک ناپسندیدہ امر انجام دینے...
  12. پ

    چند پیاسی تحریریں

    انسان ایک اکائی ھے ۔ میں مانتا ھوں مگر شائد اگر انسان اپنے آپ سے باہر نکل کر دیکھے تو اسے اس کائنات کی وسعت میں اپنا آپ ایک حقیر ذرہ سے بھی حقیر تر محسوس ھو گا۔ کہ اس سے بہت بڑی اور قد آور مخلوقات اور اشیاء اسے اپنی کم مائیگی کا احساس دلائیں گی۔ مگر یہ ذرہ، اکائی یا انسان کہ اس کے دم سے ھی رونق...
  13. پ

    چند پیاسی تحریریں

    ایک وقت ایسا بھی آتا ھے جب انسان کو خود اپنی ذات سے آشنائی کی ضرورت پڑتی ھے ۔ اور یہ وقت بہت کٹھن اور صبر آزما ھوتا ھے ۔ کہ انسان کو خود اپنی ، اپنی ضروریات اور اپنے مقام کا تعین کرنا ھوتا ھے ۔ کہ خود اپنے لیے کتنا ضروری ھے ۔ اس وقت سب دلیلیں اور دعوے ایک طرف رکھ کر انسان خود سے ریا کاری برتے...
  14. پ

    فیض ربا سچیا تُوں تے آکھیا سی

    ربا سچیا توں تے آکھیا سی جا اوئے بندیا جگ دا شاہ اے توں ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں ساڈا نیب تے عالیجاہ اے توں ایس لارے تے ٹور کد پچھیا اے کی ایس نمانے نال بیتیاں نیں کدی سار وی لئ او رب سائیاں ترے شاہ نال جگ کی کیتیاں نیں کتے دھونس پولیس سرکار دی اے کتے دھاندلی مال پٹوار...
  15. پ

    ابن انشا جب عمر کی نقدی ختم ہوئی - ابن انشا

    جب عمر کی نقدی ختم ھوئی - ابنِ انشا جب عمر کی نقدی ختم ھوئی اب عمر کی نقدی ختم ھوئی اب ھم کو ادھار کی حاجت ھے ھے کوئی جو ساھو کار بنے ھے کوئی جو دیون ھار بنے کچھ سال مہینے دن لوگو پر سود بیاج کے بن لوگو ھاں اپنی جان کے خزانے سے ھاں عمر کے توشہ خانے سے کیا کوئی بھی ساھو کار نھیں...
  16. پ

    ابن انشا نظم- ابنِ انشا

    یہ سرائے ہے، یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو یاں تو آتے ہیں مسافر، سو چلے جاتے ہیں ہاں یہی نام تھا، کچھ ایسا ہی چہرہ مہرا یاد پڑتا ہے کہ آیا تھا مسافر کوئی سونے آنگن میں پھرا کرتا تھا تنہا تنہا کتنی گہری تھی نگاہوں کی اداسی اس کی لوگ کہتے تھے کہ ہوگا کوئی آسیب زدہ ہم نے ایسی بھی کوئی بات نہ اس...
  17. پ

    فراز نظم- احمد فراز

    بارہا مجھ سے میرے دل نے کہا اے شعبدہ گر تو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ھے کبھی اس حسنِ دلآرا کی بھی تصویر بنا جو تیری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ھے بارہا میرے دل نے یہ آواز سنی اور چاہا مان لوں مجھ سے جو وجدان میرا کہتا ھے مگر کچھ اس عجز سے ھارا میرے فن کا جادو چاند کو چاند سے بڑھکر...
  18. پ

    شکیب جلالی غزل - خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے - شکیب جلالی

    خموشی بول اٹھے ھر نظر پیغام ھوجائے یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ھو جائے ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ھوجائے میں وہ آدم گزیدہ ھوں جو تنہائی کے صحرا میں خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ھو جائے مثال ایسی ھےاس دورِ خرد کے ھوشمندوں کی نہ ھو دامن...
  19. پ

    شکیب جلالی غزل - خزاں کے چاند نے جھک کے یہ پوچھا کھڑکی میں - شکیب جلالی

    خزاں کے چاند نے جھک کے یہ پوچھا کھڑکی میں کبھی چراغ بھی جلتا ھے اس حویلی میں یہ آدمی ھیں کہ سائے ھیں آدمییت کے گزر ھوا ھے میرا کس اجاڑ بستی میں جھکی چٹان،پھسلتی گرفت جھولتا جسم میں اب گرا ھی گرا تنگ و تار گھاٹی میں زمانے بھر سے نرالی ھے آپ کی منطق ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی میں جلائے ھی کیوں...
  20. پ

    شکیب جلالی غزل - کنارِ آب کھڑا خود سے کہہ رھا ھے کوئی - شکیب جلالی

    کنارِ آب کھڑا خود سے کہہ رھا ھے کوئی گماں گزرتا ھے یہ شخص دوسرا ھے کوئی ھوا نے توڑ کے پتہ زمیں پر پھینکا ھے کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ھے کوئی بٹا سکے ھیں پڑوسی کسی کا درد کبھی یہی بہت ھے چہرے سے آشنا ھے کوئی درخت راہ بتائیں ھلا ھلا کے ھاتھ کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ھے کوئی چھڑا کے ھاتھ بہت...
Top