کاشفی کی پسندیدہ شاعری

  1. کاشفی

    یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے - مخدوم محی الدین

    غزل (مخدوم محی الدین) یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح و شام لیے ہجومِ بادہء و گل میں ہجومِ یاراں میں کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام...
  2. کاشفی

    عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے - مخدوم محی الدین

    غزل (مخدوم محی الدین) عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ راٹ کٹے ہجر میں ملنے شبِ ماہ کے غم آئے ہیں چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے کوئی جلتا ہی نہیں، کوئی پگھلتا ہی نہیں موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو پیار کے نامہ کو...
  3. کاشفی

    پھر چھڑی رات ، بات پھولوں کی - مخدوم محی الدین

    غزل (مخدوم محی الدین) پھر چھڑی رات ، بات پھولوں کی رات ہے یا بارات پھولوں کی پھول کے ہار ، پھول کے گجرے شام پھولوں کی ، رات پھولوں کی آپ کا ساتھ ، ساتھ پھولوں کا آپ کی بات ، بات پھولوں کی نظریں ملتی ہیں ، جام ملتے ہیں مل رہی ہے حیات پھولوں کی کون دینا ہے جان پھولوں پر کون کرتا ہے بات پھولوں...
  4. کاشفی

    آپ کی یاد آتی رہی رات بھر - مخدوم محی الدین

    غزل (مخدوم محی الدین - حیدرآباد 1908-1969) آپ کی یاد آتی رہی رات بھر چشمِ نم مُسکراتی رہی رات بھر رات بھر درد کی شمع جلتی رہی غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر بانسری کی سریلی سہانی صدا یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر یاد کے چاند دل میں اُترتے رہے چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر کوئی دیوانہ گلیوں میں...
  5. کاشفی

    قتیل شفائی جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا - قتیل شفائی

    غزل (قتیل شفائی) جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر میدانِ کارزار کا پانسہ پلٹ گیا تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا درپیش اب نہیں ترا غم کیسے مان لوں کیسا تھا وہ پہاڑ جو رستے سے ہٹ گیا...
  6. کاشفی

    قتیل شفائی اب تو بیداد پہ بیداد کرے گی دنیا - قتیل شفائی

    غزل (قتیل شفائی) اب تو بیداد پہ بیداد کرے گی دنیا ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا زندگی بھاگ چلی موت کے دروازے سے اب قفس کون سا ایجاد کرے گی دنیا ہم تو حاضر ہیں پر اے سلسلہء جورِ قدیم ختم کب ورثہء اجداد کرے گی دنیا سامنے آئیں گے اپنی ہی وفا کے پہلو جب کسی اور کو برباد کرے گی دنیا کیا...
  7. کاشفی

    جینا مرنا دونوں محال - سرسوَتی سرن کیف

    غزل (سرسوَتی سرن کیف) جینا مرنا دونوں محال عشق بھی ہے کیا جی کا وبال مال و منال و جاہ و جلال اپنی نظر میں وہم و خیال ہم نہ سمجھ پائے اب تک دنیا کی شطرنجی چال کچھ تو شہ بھی تمہاری تھی ورنہ دل کی اور یہ مجال کس کس سے ہم نبٹیں گے ایک ہے جان اور سو جنجال مست کو گرنے دے ساقی ہاں اس کے شاعر کو...
  8. کاشفی

    تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں - سردار گنڈا سنگھ مشرقی

    غزل (سردار گنڈا سنگھ مشرقی) تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں ہمیں ہیں ایک اُن میں جو ترا غم کھانے والے ہیں عدم کے جانے والو دوڑتے ہو کس لیے، ٹھہرو ذرا مل کے چلو ہم بھی وہیں کے جانے والے ہیں صفائی اب ہماری اور تمہاری ہو تو کیوں کر ہو وہی دشمن ہیں اپنے جو تمہیں سمجھانے والے ہیں کسے ہم...
  9. کاشفی

    کی مے سے ہزار بار توبہ - سردار گنڈا سنگھ مشرقی

    غزل (سردار گنڈا سنگھ مشرقی) کی مے سے ہزار بار توبہ رہتی نہیں برقرار توبہ تم مے کرو ہزار بار توبہ تم سے یہ نبھے قرار توبہ بندوں کو گنہ تباہ کرتے ہوتی نہ جو غم گسار توبہ ہوتی ہے بہار میں معطل کرتے ہیں جو میگسار توبہ مقبول ہو کیوں نہ گر کریں ہم با دیدہء اشک بار توبہ ہوگی کبھی مشرقی نہ قبول...
  10. کاشفی

    چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں - شاد عارفی

    غزل (شاد عارفی) چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں شراب تلخ پلانے کی بات کرتا ہوں خود آگہی کو جگانے کی بات کرتا ہوں سخنوروں کو جلانے کی بات کرتا ہوں کہ جاگتوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں اُٹھی ہوئی ہے جو رنگینیء تغزل پر وہ ہر نقاب گرانے کی بات کرتا ہوں اس انجمن...
  11. کاشفی

    اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے - دواکر راہی

    غزل (دواکر راہی) اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے ہر ہاتھ میں دولت ہے، ہر آنکھ سوالی ہے شاید غمِ دوراں کا مارا کوئی آجائے اس واسطے ساغر میں تھوڑی سی بچا لی ہے ہم لوگوں سے یہ دنیا بدلی نہ گئی لیکن ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے اُس آنکھ سے تم خود کو کس طرح چھپاؤ گے جو آنکھ پسِ پردہ بھی...
  12. کاشفی

    کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی - دواکر راہی

    غزل (دواکر راہی) کچھ آدمی سماج پہ بوجھل ہیں آج بھی رسّی تو جل گئی ہے مگر بَل ہیں آج بھی انسانیت کو قتل کیا جائے اس لیے دیر و حرم کی آڑ میں مقتل ہیں آج بھی اب بھی وہی ہے رسم و روایت کی بندگی مطلب یہ ہے کہ ذہن مقفل ہیں آج بھی باتیں تمہاری شیخ و برہمن خطا معاف پہلے کی طرح غیر مدلل ہیں آج بھی...
  13. کاشفی

    عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے - مینا کماری

    غزل (مینا کماری - 1932-1972) (فلم اداکارہ جنہیں "ملکہ غم" کہا جاتا ہے۔ "تنہا چاند" ان کا شعری مجموعہ ہے۔) عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے میرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے تیرے قدموں کی آہٹ...
  14. کاشفی

    تم اپنی زباں خالی کر کے اے نکتہ ورو پچھتاؤ گے - اختر مسلمی

    غزل (اختر مسلمی) تم اپنی زباں خالی کر کے اے نکتہ ورو پچھتاؤ گے میں خوب سمجھتا ہوں اس کو جو بات مجھے سمجھاؤ گے اک میں ہی نہیں ہوں تم جس کو جھوٹا کہہ کر بچ جاؤ گے دنیا تمہیں قاتل کہتی ہے کس کو کس کو جھٹلاؤ گے یا راحتِ دل بن کر آؤ یا آفتِ دل بن کر آؤ! پہچان ہی لوں گا میں تم کو جس بھیس میں بھی تم...
  15. کاشفی

    وہ حرف حرف مکمل کتاب کردے گا - اجیت سنگھ حسرت

    غزل (اجیت سنگھ حسرت) وہ حرف حرف مکمل کتاب کردے گا ورق ورق کو محبت کا باب کر دے گا اُجالے کے لئے اس کو صدا لگاؤ اب یہ کام چٹکیوں میں آفتاب کر دے گا وہ جب بھی دیکھے گا مستی بھری نظر سے مجھے مرے وجود کو یکسر شراب کر دے گا مجھے یقین ہے اعجاز لمس سے اک دن وہ خار کو بھی شگفتہ گلاب کر دے گا ہزار...
  16. کاشفی

    جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں - اجے پانڈے سحاب

    غزل (اجے پانڈے سحاب) جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لئے صبح ہوتے ہی جنہیں لوگ بجھا دیتے ہیں ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو لڑکھڑانے کی...
  17. کاشفی

    زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں - سبودھ لال ساقی

    غزل (سبودھ لال ساقی) زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں خموش رہ کے ہی اظہار کرنے والا ہوں میں کرنے والا ہوں ہر خیرخواہ کو مایوس ابھی میں جرم کا اقرار کرنے والا ہوں چھپانی چاہئے جو بات مجھ کو دنیا سے اسی کا آج میں اظہار کرنے والا ہوں وہ جس کے بعد مجھے کچھ نہیں ڈرائے گا وہ انکشاف سرِ دار کرنے...
  18. کاشفی

    سلسلہ ختم کر چلے آئے - سبھاش پاٹھک ضیا

    غزل (سبھاش پاٹھک ضیا) سلسلہ ختم کر چلے آئے وہ اُدھر ہم اِدھر چلے آئے میں نے تو آئینہ دکھایا تھا آپ کیوں روٹھ کر چلے آئے دل نے پھر عشق کی تمنا کی راہ پھر پُر خطر چلے آئے دور تک کچھ نظر نہیں آتا کیا بتائیں کدھر چلے آئے میں جھکا تھا اُسے اُٹھانے کو سب مجھے روند کر چلے آئے اے ضیا دل ہے بھر نہ...
  19. کاشفی

    تو آگ رکھنا کہ آب رکھنا - سبھاش پاٹھک ضیا

    غزل (سبھاش پاٹھک ضیا) تو آگ رکھنا کہ آب رکھنا ہے شرط اتنی حساب رکھنا زبان کا کچھ خیال رکھ کر بیان کو کامیاب رکھنا قریب آؤ کہ چاہتا ہوں ہتھیلی پر ماہتاب رکھنا اگر تمازت کو سہ سکو تم تو حسرتِ آفتاب رکھنا جو کہنی ہو بات خار جیسی تو لہجہ اپنا گلاب رکھنا ضیا کسی سے سوال پوچھو تو ذہن میں تم جواب...
  20. کاشفی

    زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں - سبطِ علی صبا

    غزل (سبطِ علی صبا - 1935-1980) زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں شہر کی گلیوں میں اب آوارگی اچھی نہیں زندہ رہنا ہے تو ہر بہروپئے کے ساتھ چل مکر کی تیرہ فضا میں سادگی اچھی نہیں کس نے اذن قتل دے کر سادگی سے کہہ دیا آدمی کی آدمی سے دشمنی اچھی نہیں جب مرے بچے مرے وارث ہیں ان کے جسم میں سوچتا ہوں...
Top