فکر
راتوں کی بسیط خامشی میں
جب چاند کو نیند آ رہی ہو
پھولوں سے لدی خمیدہ ڈالی
لوری کی فضا بنا رہی ہو
جب جھیل کے آئینے میں گھل کر
تاروں کا خرام کھو گیا ہو
ہر پیڑ بنا ہوا ہو تصویر
ہر پھول سوال ہو گیا ہو
جب خاک سے رفعتِ سما تک
ابھری ہوئی وقت کی شکن ہو
جب میرے خیال سے خدا تک
صدیوں کا سکوت خیمہ...
روایت
قدموں کے نقوش ہوں کے چہرے
قبروں کے گلاب ہوں کہ سہرے
تاریخ کے بولتے نشاں ہیں
تہذیب کے سلسلے رواں ہیں
یہ رسمِ جہاں قدیم سے ہے
آدم کا بھرم ندیم سے ہے
دعوت
اے میری پرستشوں کے حقدار
آ، میں تیرے حسن کو نکھاروں
چہرے سے اُڑا کے گردِ ایام
آ، میں تیری آرتی اُتاروں!
تُو میری زباں بھی، آسماں بھی
میں تجھ کو کہاں کہاں پکاروں
تضاد
کتنے کوسوں پہ جابسی ہے تو
میں تجھے سوچ بھی نہیں سکتا
اتنا بے بس ہوں تیری سوچ کو میں
ذہن سے نوچ بھی نہیں سکتا
مجھ سے تو دُور بھی ہے پاس بھی ہے
اور مجھے یہ تضاد راس بھی ہے
ماہنامہ فنون کا دفتر اب تو خیر انارکلی ہی میں اور جگہ چلا گیا ہے۔ پہلے گرجا کے سامنے ایک چوبارے میں تھا۔ اسی میں حکیم حبیب اشعر صاحب مطب بھی کیا کرتے تھے۔ سامنے کے برآمدے میں احمد ندیم قاسمی صاحب تشریف رکھتے اور اہلِ ذوق کا مجمع چائے کے خم لنڈھاتا۔ دوسرے میں حکیم صاحب قارورے دیکھتے اور دوائیں...
سرخ ٹوپی
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)
اس نے کپڑا نچوڑ کر الگنی پر لٹکایا اور منڈیر پر بیٹھے ہوئے کوے کو دیکھ کر بولی! تو جل مرے موئے کالے کلوٹے بھتنے، کائیں کائیں سے میرا مغز چاٹ لیتا ہے۔ گاؤں بھر میں کیا یہی منڈیر اچھی لگتی ہے تجھے؟ اور اس نے اپنا پرانا جوتا پوری قوت سے منڈیر پر پھینکا۔ کوا کائیں...
غزلِ
احمد ندیم قاسمی
شبِ فِراق جب مژدۂ سَحر آیا
تو اِک زمانہ تِرا مُنتظر نظر آیا
تمام عُمر کی صحرا نوَردِیوں کے بعد
تِرا مقام سرِ گردِ رہگُزر آیا
یہ کون آبلہ پا اِس طرف سے گُذرا ہے
نقُوش پا میں جو پُھولوں کے رنگ بھر آیا
کِسے مجال، کہ نظّارۂ جمال کرے
اِس انجُمن میں جو آیا، بَچشمِ تر آیا...
بابا نور
(احمد ندیم قاسمی)
’’کہاں چلے بابانور؟‘‘ایک بچے نے پوچھا۔ ’’بس بھئی،یہیں ذرا ڈاک خانے تک۔‘‘بابا نور بڑی ذمے دارانہ سنجیدگی سے جواب دے کر آگے نکل گیا اور سب بچے کھلکھلاکر ہنس پڑے ۔ صرف مولوی قدرت اللہ چپ چاپ کھڑا بابا نور کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ بولا’’ہنسو نہیں بچو۔ ایسی باتوں پر ہنسانہیں...
وحشی (افسانہ)
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)
’’آ گئی۔‘‘ ہجوم میں سے کوئی بولا اور سب لوگ یوں دو دو قدم آگے بڑھ گئے جیسے دو دو قدم پیچھے کھڑے رہتے تو کسی غار میں گر جاتے۔
’’کتنے نمبر والی ہے؟‘‘ ہجوم کے پیچھے سے ایک بڑھیا نے پوچھا۔
’’پانچ نمبر ہے۔‘‘ بڑھیا کے عقب سے ایک پنواڑی بولا۔
بڑھیا ہڑبڑا کر...
احمد ندیم قاسمی
حیراں حیراں کونپل کونپل کیسے کِھلتے پُھول یہاں
تنے ہُوئے کانٹوں کے ڈر سے پُوجی گئی ببول یہاں
کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں، غنچے کٹ کے شگفتہ ہُوئے
کاش یہ فصلِ خُونِ بہاراں اور نہ کھینچے طُول یہاں
شاید آج بھی جاری ہے آدم کا سلسلۂ اُفتاد
تھی نہ وہاں جنّت بھی گوارا اور قبوُل ہے...
غزل
دیارِ عشق کا یہ حادثہ عجیب سا تھا
رُخِ رقیب پہ بھی پرتوِ حبیب سا تھا
فراق زخم سہی، کم نہ تھی جراحتِ وصل
معانقہ مرے محبوب کا، صلیب سا تھا
ترے جمال کی سرحد سے کبریا کا مقام
بہت قریب تو کیا تھا، مگر قریب سا تھا
سنی ہے میں نے صدائے شکستِ نکہت و رنگ
خزاں کی راہ میں ہر پھول ، عندلیب سا تھا...
بھلا کیا پڑھ لیا ہے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں
کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں
ابھی غیروں کے دکھ پہ بھیگنا بھولی نہیں آنکھیں
ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں
نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک...
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا ۔۔۔۔۔ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا ۔۔۔۔ اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے...
آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں
نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید
میں مجسم شبِ تنہائی ہوں
ہے سفر شرط مجھے پانے کی
میں کہ اک لالۂ صحرائی ہوں
سیدھے رستے پہ چلوں تو کیسے
بھولی بھٹکی ہوئی دانائی ہوں
مجھ سے خود کو نہ سمیٹا جائے
اور خدائی کا تمنائی ہوں
میرے ماضی کے اندھیروں پہ نہ جا...
وہ میری کار چرا لائے ہیں بازاروں میں
پیروٍی از محمد خلیل الرحمٰن
(احمد ندیم قاسمی سے معذرت کے ساتھ)
وہ مری کار چرا لائے ہیں بازاروں میں
جل رہا ہوں میں انہیں دیکھ کے اخباروں میں
کار چوری کی تو کھُل جاتی ہے فوراً فوراً
پُرزے کھُلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں
مجھ سے کتراکے مری کار چرا کر لے...
بھلا میری زباں پر شکوہ کب تھا
اگر تھا بھی تو یکسر زیرِ لب تھا
میں سچ کی جستجو میں ہوں ازل سے
یہی طُولِ مسافت کا سبب تھا
مرے کِیسے میں جو دولت بھری تھی
مرا سرمایۂ شعر و ادب تھا
بدلتے ہی نہیں معیار میرے
وہی غم اب بھی ہے ، جیسا کہ تب تھا
یقیناً ظلم ٹُوٹا ہے کسی پر
اندھیرا ورنہ اتنا گہرا کب...
بگڑ کے مجھ سے وہ میرے لئے اُداس بھی ہے
وہ زود رنج تو ہے، وہ وفا شناس بھی ہے
تقاضے جِسم کے اپنے ہیں، دل کا مزاج اپنا
وہ مجھ سے دور بھی ہے، اور میرے آس پاس بھی ہے
نہ جانے کون سے چشمے ہیں ماورائے بدن
کہ پا چکا ہوں جسے، مجھ کو اس کی پیاس بھی ہے
وہ ایک پیکرِ محسوس، پھر بھی نا محسوس
میرا یقین بھی...
میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیرا دہلیز نشین
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تیری قربت میں کٹے
جیسے اک عمر گذار آیا ہوں
جب بھی میں ارضِ مدینہ پہ چلا
دل ہی دل میں بہت اِترایا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اک ہالہء نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
یہ کہیں...
غزلِ
احمد ندیم قاسمی
ابھی نہیں اگر اندازۂ سپاس ہمیں
تو کیوں مِلی تھی بھلا تابِ التماس ہمیں
اُفق اُفق پہ نقُوشِ قدَم نُمایاں ہیں
تلاش لائی کہاں سے تُمھارے پاس ہمیں
کبھی قرِیب سے گُزرے، بدن چُرائے ہُوئے
تو دُور تک نظر آتے رہے اُداس ہمیں
جو ہو سکے تو اِس اِیثار پر نِگاہ کرو
ہماری آس جہاں کو،...