خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو...
غزل
بھرم غزال کا جس طرح رَم کے ساتھ رہا
مرا ضمیر بھی میرے قلم کے ساتھ رہا
جُدائیوں کے سفر، سرخوشی میں گزرے ہیں
کہ اُس کا عکس، مری چشمِ نم کے ساتھ رہا
اِک آفتاب مرے سرَ سے ڈھل سکا نہ کبھی
کہ میرا سایہ میرے ہر قدم کے ساتھ رہا
نہ بھول پائے وطن کو جلا وطن جیسے
ہر آدمی کا تعلق ارم کے...
غزل
تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے
کبھی جھانکا تری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے
لمس کے دم سے بصارت بھی، بصیرت بھی ملی
چُھو کے دیکھا تو جو پتھر تھے نرے ریشم تھے
تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں
میرے گھر کے یہی ہیرے تھے، یہی نیلم تھے
برف گرماتی رہی، دھوپ اماں دیتی...
ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں
اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں
ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں
وہ کڑا موڑ ہے ہمیں درپیش
راستے ہر طرف نکلتے ہیں
کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی
دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں
وہ ہوئیں بارشیں، کہ کھیتوں میں
کرب اگتے ہیں ، درد پلتے ہیں...
اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا
حسن بر حق ہے ، مگر جب بجھ چکا ہو جی تو کیا
جب ترا کہنا ہے ، تو تقدیر کا محکوم ہے
تُو نے نفرت کی تو کیا، تُو نے محبت کی تو کیا
اب کہاں سے لاؤں وہ آنکھیں جو لذت یاب ہوں
دستِ باراں نے مرے در پر جو دتک دی تو کیا
دھوپ کرنوں میں پرو لے جاءے گی ساری نمی
رات بھر...
قاسمی صاحب کی بہت خوبصورت نعت ھے جو میں آپ لوگوں سے بھی شئیر کر رہی ہوں۔:)
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ھے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ھے کچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ھے...
انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقاء کا تھا
اس رشتہء لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا
ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
چھپ چھپ...
ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے
زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے
رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے
میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے...
کون کہتا ہے کہ موت آئ تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی
فا ع لا تن | ف ع لا تن | ف ع لا تن | فع لن
کو ن کے تا | ہ ک مو آ | ء ت مر جا | ؤ گا
مے ت دریا | ہ س من در | م اتر جا | ؤ گا
2 1 2 2 |...
درد وطن از احمد ندیم قاسمی
ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں
شب صحرا سے مگر صبح چمن مانگتے ہیں
وہ جو ابھرا بھی تو بادل میں لپٹ کر ابھرا
اسی بچھڑے ہوئے سورج کی کرن مانگتے ہیں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
ایسے غنچے بھی تو...
کس کو قاتل میں کہوں کس کو مسیحا سمجھوں
سب یہاں دوست ہی بیٹھے ہیں کسے کیا سمجھوں
وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر وہم یقیں ہوتا تھا
اب حقیقت نظر آئے تو اسے کیا سمجھوں
دل جو ٹوٹا تو کئی ہاتھ دعا کو اٹّھے
ایسے ماحول میں اب کس کو پرایا سمجھوں
ظلم یہ ھے کہ ھے یکتا تیری بیگانہ روی...
وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے۔
تمام عمر وفا کے گنہگار ر ہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے۔
یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پُرانے لوگ، نئے آدمی سے جلتے تھے۔
ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ اک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے۔...
مجھے ان جرائم کی اجازت چاہئے!!
زندگی کے جتنے دروازے ہیں، مجھ پر بند ہیں
دیکھنا۔۔۔۔ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جُرم ہے
سوچنا۔۔۔۔ اپنے یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جُرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جُرم ہے
کیوں بھی کہنا جُرم ہے
کیسے بھی کہناجُرم ہے
سانس لینے کی...
دوستو
’سمت‘ اردو تحریر میں اردو کا پہلا آن لائن جریدہ اپنا پانچواں شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2006ء ’احمد ندیم قاسمی نمبر‘ ریلیز ہو گیاہے۔ دیکھیں:
http://e-samt.4t.com
http://e-samt.tk
مشمولات:
مضامین اور نثری خراجِ عقیدت: شمس الرحمن فاروقی، جمیل الدین عالی، مجتبیٰ حسین، خالد اختر، رفعت سروش،...
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
موسمِ گل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے
مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا مجھے خدا لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد سے سب سے جدا لگتا ہے
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن...
[align=right:db5f0d4cf4] ماسی گُل بانو۔
اُس کے قدموں کی آواز بلکل غیر متوازن تھی، مگر اُس کے عدم توازن میں بھی بڑا توازن تھا۔آخر بے آہنگی کا تسلسل بھی تو ایک آہنگ رکھتا ہے۔سو اُس کے قدموں کی چاپ ہی سے سب سمجھ جاتے تھے کہ ماسی گُل بانو آرہی ہے۔گُل...
ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی...
احمد ندیم قاسمی کی لازوال تحریر
عالاں
اماں ابھی دہی بلو رہی تھیں کہ وہ مٹی کا پیالہ لئے آ نکلی۔یہ دیکھ کر کہ ابھی مکھن ہی نہیں نکالا گیا تو لسسی کہاں سے ملے گی؟وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ واپس چلی جائے یا وہیں کھڑی رہے۔
”بیٹھ جاؤ عالاں ! " اماں نے کہا،ابھی دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی ہو؟
جی...