محترم چور صاحب قبلہ ۔ از احمد ندیم قاسمی
سنا ہے کہ تلاشِ گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور ہے کہ ایک شخص کا بریف کیس چوری ہو گیا۔ اس نے پولیس میں رپورٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا:
محترم چور صاحب قبلہ! السلام علیکم! آپ...
ابھی ڈوب رہی ہے لہو میں راہِ حیات
ابھی حکایتِ عشق و جمال کون سنے
عظیم ادب کے ادیبو
بڑے ادب کے مریضو
مجھے بھی یاد ہیں وہ خواب ناک افسانے
جو اس جہاں سے بہت دور ، اک جزیرے پر
پنپ رہے ہیں گھنی چھتریوں کے سائے میں
مگر یہ ٹھوکریں کھاتا ہوا غریب انساں
تہی شکم ہے تہی دست ہے تہی دل ہے
بڑے ادب...
ساڑھے تین سال کے وقفے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے سہ ماہی ادبی جریدے فنون کا 303 صفحات پر مشتمل ضخیم پرچہ میرے ہاتھ میں ہے۔ 2006ء میں قاسمی صاحب تک یہ رسالہ چلتا رہا مگر پھر بند ہو گیا۔ اب ان کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی اور فرزند نعمان قاسمی نے اسے دھوم دھام سے خوبصورت تصاویر سے مزین کر کے اعلیٰ...
سائے
(احمد ندیم قاسمی)
یہ سائے، یہ پھیلے پھیلے، بکھرے بکھرے سائے
یہ سائے، یہ دھندلے دھندلے، نکھرے نکھرے سائے
گویہ سائے آج سمجھتے ہیں ، مجھ کو بے گانہ
لیکن ان سے وابستہ ہے ایک حسیں افسانہ
ان کے نیچے میں نے کاٹیں بھادوں کی دوپہریں
جب رقصاں ہوتی تھیں ہر سو، دھوپ کی تپتی لہریں
جب اک البیلی...
احمد ندیم قاسمی کی ایک شہکار غزل جس کا تیسرا شعر تو بے انتہا مقبول ہوا:
گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں
مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ...
غزل- درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا -احمد ندیم قاسمی
درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا
اک کھنڈر مجھکو عطا کیا کرتا
جس اندھیرے میں ستارے نہ جلے
ایک مٹی کا دیا کیا کرتا
ریت بھی ہاتھ میں جس کے نہ رکی
وہ تہی دست دعا کیا کرتا
ڈھب سے جینا بھی نہ آیا جس کو
اپنے مرنے کا گلہ کیا کرتا
اس کا ہونا ہے...
تم گدا گر کے گدا گر ہی رہے
تم نے کشکول تہِ جامہء بانات چھپا رکھا تھا
اور چہرے پر انا تھی
جو ہمیشہ کی طرح جھوٹی تھی
وہ یہ کہتی ہوئی لگتی تھی کہ ہم بھیک نہیں مانگیں گے
یعنی مر جائیں گے لیکن کسی منعم کے درِ زر پر دستک نہ دیں گے
یہ جو گرتے ہوئے سکوں کی کھنک چار طرف گونجی ہے
یہ شنیدہ ہے کئی...
کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے
دلِ بے تاب کو برما رہا ہے
مجھے کیا چاہئے اس سے زیادہ
میں روتا ہوں کوئی شرما رہا ہے
فرشتے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں شعلے
کوئی عاشق بنایا جا رہا ہے
خمیر اک پیکرِ زھرہ جبیں کا
ستاروں سے اٹھایا جا رہا ہے
یہ آنسو؟۔۔کون جانے ان کا مطلب!
پرانا واقعہ یاد آرہا ہے
مجھے...
آخری سجدہ
مِری زندگی ترے ساتھ تھی، مِری زندگی ترے ہات تھی
مری روح میں ترا نور تھا مِرے ہونٹ پر تری بات تھی
مرے قلب میں ترا عکس تھا، مری سانس میں تری باس تھی
ترے بس میں میرا شباب تھا، مری آس بھی ترے پاس تھی
ترے گیت گاتی تھی جب بھی میں مجھے چھیڑتی تھیں سہلیاں
مگر اُن پہ کھُل نہ سکیں کبھی مری...
غزل
(احمد ندیم قاسمی)
جاتے ہوئے اک بار تو جی بھر کے رُلائیں
ممکن ہے کہ ہم آپ کو پھر یاد نہ آئیں
ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں
پھر تشنہ لبی زخم کی دیکھی نہیں جاتی
پھر مانگ رہا ہوں ترے آنے کی دعائیں
پھر بیت نہ جائے یہ جوانی، یہ زمانہ
آؤ تو یہ اُجڑی...
غزل
(احمد ندیم قاسمی)
بیٹھا ہوں تشنگی کو چھپائے نگاہ میں
ساقی کے آستانہء عالم پناہ میں
پھر عرش و فرش میں ہے قیامت مچی ہوئی
پھر جنبشیں ہیں یار کی نیچی نگاہ میں
پروردگار میری "صبوحی" کو دیکھ کر
کیوںآگ لگ گئی ہے تیرے مہر و ماہ میں
ہر ذرّے پر ہے میری جبیں اب جھکی ہوئی
دیکھا تھا نقشِ پائے صنم...
غزل
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار! کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں ، مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
دل میں وہ زخم کھلے ہیں چمن کیا شے ہے
گھر میں بارات سی اتری ہے...
جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی
دل مگر اس پہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار محبّت کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ اآتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ پیار اآتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ...
میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
دُکھی تھے وہ بھی، سو میں اپنے دکھ بھلا بیٹھا
سنی جو شہرتِ آسودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لئے، میرے دِل میں آبیٹھا
بس ایک بار غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی
میں تیرے ہجر میں دستِ دُعا اٹھا بیٹھا
خُدا گواہ کہ لُٹ جاؤں گا، اگر میں کبھی
تجھے گنوا کے ترا درد بھی...
ریستوراں کے فرش پہ لرزاں سائے رقاصاؤں کے
ذھن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچيں راز خداؤں کے
چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟
جس کی لؤ سے پھول لجائيں، اس چہرے پہ غازے کیوں
یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر
وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر...
ہم اپنی قوّتِ تخلیق کو اکسانے آئے ہیں
ضمیرِ ارتقاء میں بجلیاں دوڑانے آئے ہیں
جو گردش میں رہیں گے اور کبھی خالی نہیں ہوں گے
ہم ایسے جام بزمِ دہر میں چھلکانے آئے ہیں
اجل کی رہزنی سے ہر طرف طاری ہیں سنّاٹے
سرودِ زندگی کو نیند سے چونکانے آئے ہیں
ہوائيں تیز ہیں جل جل کے بجھتے ہیں چراغ اپنے...
دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوں
یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آئيگی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا
اگر نشانِ سفر تک...
بڑی مانوس لے میں ایک نغمہ سن رہا ہوں میں
کسی ٹوٹی ہوئی چھاگل کی کڑ یاں چن رہا ہوں میں
یہاں اب ان کے اظہاِر محبت کا گزر کیا ہو
کہ سناٹے کی موسیقی پہ بھی سر دھن رہا ہوں میں
شبِ وعدہ ابھی تک ختم ہو نے میں نہیں آئی
کہ بر سوں سے مسلسل ایک آہٹ سن رہا ہوں میں
تصور میں ترے پیکر کا سونا گھل گيا...
غزل
وہ جو اک عمر سے مصروف عبادات میں تھے
آنکھ کھولی تو ابھی عرصہء ظلمات میں تھے
صرف آفات نہ تھیں ذاتِ الٰہی کا ثبوت
پھول بھی دشت میں تھے، حشر بھی جذبات میں تھے
نہ یہ تقدیر کا لکھا تھا نہ منشائے خدا
حادثے مجھ پہ جو گزرے مرے حالات میں تھے
میں نے کی حدِ نظر پار تو یہ راز کھلا...
غزل
روز، اک نیا سورج ہے تری عطاؤں میں
اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں
شاید ان دیاروں میں خوش دلی بھی دولت ہے
ہم تو مسکراتے ہی گھر گئے گداؤں میں
بھائیوں کے جمگھٹ میں، بے ردا ہوئیں بہنیں
اور سر نہیں چھپتے ماؤں کی دعاؤں میں
بارشیں تو یاروں نے کب کی بیچ ڈالی ہیں
اب تو صرف غیرت کی...