بُجھ گئی دل کی روشنی، راہ دھواں دھواں ہوئی
صبح چلے کہاں سے تھے، شام ہمیں کہاں ہوئی
شوق کی راہِ پُر خطر، طے تو کر آئے ہم مگر
نذرِ حوادثِ سفر، دولتِ جسم و جاں ہوئی
عشق و جنوں کی واردات، دیدہ و دل کے سانحات
بیتی ہوئی ہر ایک بات، دُور کی داستاں ہوئی
کوئی بھی اب نہیں رہا جس کو شریکِ غم کہیں
دورِ...
جو بچھڑ کے جینا روا ہوا، یہ برا ہوا
نہ جنوں کا قرض ادا ہوا، یہ برا ہوا
شبِ ہجر کھا گئی زیست کو چلو ٹھیک ہے
جو شکستِ عہدِ وفا ہوا، یہ برا ہوا
مجھے ہمسفر کی شقاوتوں کا گلہ نہیں
مرا خون میرا خدا ہوا، یہ برا ہوا
ترا حق تھا راہ بدلنا، تو نے بجا کیا
مرا اعتبار فنا ہوا، یہ برا ہوا
مرا ایک عمر کا...
زندگی سے نباہ مشکل ہے
یہ مسلسل گناہ مشکل ہے
ہاں مرے خیر خواہ مشکل ہے
تیرے ہاتھوں پناہ مشکل ہے
دوستی ہی میں دشمنی بھی ہو
یہ نئی رسم و راہ مشکل ہے
ارتکابِ گناہ سہل نہیں
انتخابِ گناہ مشکل ہے
اے مری جان! اے مرے ایمان!
اب ہمارا نباہ مشکل ہے
ہم سے اس مسئلے پہ بات نہ کر
فقر اے بادشاہ مشکل ہے...
ایک کاوش احباب کے ذوق کی نذر
ستائش سن کے اِترانے سے پہلے
وہ شرمائے بھی، مسکانے سے پہلے
خرد کو تھی تعقل سے ہی نسبت
خمارِ عشق چھا جانے سے پہلے
خیالوں میں بنائی ایک جنت
تصور میں تمہیں لانے سے پہلے
ہزاروں استعارے ہم نے سوچے
تمہارا ذکر کر جانے سے پہلے
عدو کے مورچوں کی بھی خبر لو
ہمارے زخم سہلانے...
غزل
اُٹھا رکھوں سبھی کارِ جہاں، کتاب پڑھوں
تیاگ دوں یہ جہاں، ناگہاں! کتاب پڑھوں
وہاں پہنچ کے نہ جانے کہاں ٹھہرنا ہو
سفر میں ہُوں تو یہاں تا وہاں، کتاب پڑھوں
ابھی تو کیف سے پُر ہے حکایتِ ہستی
نئی نئی ہے ابھی داستاں، کتاب پڑھوں
رواں سفینہ ٴ ہستی ہے، رکھ نہ دوں پتوار؟
ہوا کی اور رکھوں بادباں،...
بہہ گئے خواہشوں کے ریلے میں
ہم ہیں گم زندگی کے میلے میں
اپنا پندار ٹوٹ جائے گا
خود سے ملیے کبھی اکیلے میں
حسنِ کردار جیسی میٹھی مہک
نہ تو گیندے میں ہے نہ بیلے میں
بات کرنے سے پہلے سوچے بھی؟
کون پڑتا ہے اس جھمیلے میں
اب تماشا ہے جا بجا تابشؔ
پہلے ہوتا تھا میلے ٹھیلے میں
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
غزل
خفا ہیں؟مگر! بات تو کیجیے
ملیں مت، ملاقات تو کیجیے
ملیں گے اگر تو ملیں گے کہاں
بیاں کچھ مقامات تو کیجیے
پلائیں نہ پانی ،بٹھائیں بھی مت
مُسافر سے کچھ بات تو کیجیے
نہیں اِتنے سادہ و معصوم وہ
کبھی کچھ غلط بات تو کیجیے
سنی وعظ و تقریر، اچھی لگی
چلیں ،کچھ مناجات تو کیجیے
نہیں دوستی کی فضا...
غزل
چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے
غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے
کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے !
ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے
کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب
تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے
ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں
کُچھ اِس طرح...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا!
جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا
تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب!
خط میرے نام لکھ کے جب...
وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا
وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا
باغ میں پُھول اُس روز جو بھی کِھلا، اُسکی زلفوں میں سجنے کو بے چین تھا
جو ستارہ بھی اُس رات روشن ہُوا، اُسکی آنکھوں کی جانب روانہ ہُوا
کہکشاں سے پَرے، آسماں سے پَرے،...
اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں
مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں
گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے
کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں
مآلِ غنچہ و گل ہے مری نگاہوں میں
مجھے تبسمِ کاذب کا حوصلہ بھی نہیں
طلوعِ صبحِ ازل سے میں ڈھونڈتا تھا جسے
ملا تو ہے پہ مری سمت دیکھتا بھی نہیں
مری...
کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا
دھوپ میں پھرنا، گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا
ساتھ اس کے کوئی منظر، کوئی پس منظر نہ ہو
اِس طرح میں چاہتا ہوں اُس کو تنہا دیکھنا
رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا
کس سے پوچھیں، خواب میں کیسا ہے دریا دیکھنا
اس گھڑی کچھ سوجھنے دے گی نہ یہ پاگل ہوا
اک ذرا آندھی...
سوچنا، روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا
یہ بھی کیا سانس کو تلوار بنائے رکھنا
راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے، ابھی سے سن لو
ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا
کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا
کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری
نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا
اپنی...
میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اذنِ رہائی نہیں دیتا
چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اور دستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیا
آنکھیں بھی ہیں، رستا بھی، چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
اب...
غزل
موسموں کا مزاج اچھا ہے
کل سے بہتر ہے آج، اچھا ہے
فرد بہتر، معاشرہ بہتر
آپ اچھے، سماج اچھا ہے
روٹھ کر بھی وہ مسکراتے ہیں
یہ چلن، یہ رواج اچھا ہے
رستگاری غموں سے ہوتی ہے
بیٹھے سے کام کاج اچھا ہے
وہ تفنن جو دل پہ بار نہ ہو
اے مرے خوش مزاج !اچھا ہے
احمدؔ اچھی ہے تیری گمنامی
تیرے سر پر یہ...
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید...
خوئے اظہار نہیں بدلیں گے
ہم تو کردار نہیں بدلیں گے
غم نہیں بدلیں گے یارو، جب تک
غم کے معیار نہیں بدلیں گے
لوگ آئینے بدلتے ہیں، مگر
اپنے اطوار نہیں بدلیں گے
تم نہ بدلو گے، تو زندانوں کے
در و دیوار نہیں بدلیں گے
قافلے راہ بدلنے پہ مصر
اور سالار نہیں بدلیں گے
چاہیں تو راہنما سستا لیں
ہم تو...
سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں
آ گئی راس ان کو بھی شامِ خزاں
ہم بہاروں سے مایوس کیا ہو گئے
دیس میں بڑھ گئے یونہی دامِ خزاں
غم ضروری ہے قدرِ خوشی کے لیے
ہے یہی غمزدوں کو پیامِ خزاں
دن بہاروں کے آ کر چلے بھی گئے
ہم تو کرتے رہے اہتمامِ خزاں
گر کلامِ بہاراں ہے گل کی مہک
تو ہے پتوں کی آہٹ کلامِ...
ہیں میرے قلب و نظر، لعل اور گہر میرے
سمیٹ لیں مرے ریزوں کو شیشہ گر میرے
وه بول ہوں کہ کہیں نغمہ ہوں، کہیں فریاد
وہ لفظ ہوں کہ معانی، ہیں منتشر میرے
مرے نصیب میں بنجر زمیں کی رکھوالی
کنویں اداس مرے، کھیت بے ثمر میرے
خزاں میں ولولۂ پر کشائی کس نے دیا
بہار آئی تو باندھے ہیں کس نے پر میرے
وہ...
غزل
کرب چہرے کا چھپاتے کیسے
پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے
ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے
مسکراہٹ سی سجاتے کیسے
بعد مُدّت کی خبرگیری پر
اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے
دوستی میں رہے برباد نہ کم
دشمنی کرتے نبھاتے کیسے
خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست
وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے
ظاہر اُن پر ہُوئیں...