غزل

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  3. عاطف ملک

    اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا

    اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا خدا کی وسعتِ رحمت سے لو لگاؤں گا میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا ہو جس میں میرے مقابل وہ دشمنِ ایماں میں جان بوجھ کے وہ جنگ ہار جاؤں گا بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا اسی کے نام سے...
  4. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہو گی

    کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہو گی گماں تھا، تیرے طرزِ جبر میں شائستگی ہو گی مجھے تسلیم ہے، تو نے محبت مجھ سے کی ہو گی مگر حالات نے اظہار کی مہلت نہ دی ہو گی میں اپنے آپ کو سلگا رہا ہوں اس توقع پر کبھی تو آگ بھڑکے گی، کبھی تو روشنی ہو گی شفق کا رنگ کتنے والہانہ پن سے بکھرا ہے زمیں...
  5. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: درگزر کرنے کی عادت سیکھو

    درگزر کرنے کی عادت سیکھو اے فرشتو! بشریت سیکھو ربِّ واحد کے پجاری ہو اگر تم جو کثرت میں ہو، وحدت سیکھو دشت، جو ابر کے محتاج نہیں ان سے پیرایۂ غیرت سیکھو ریزه ریزه ہی اگر رہنا ہے اپنے صحراؤں سے وسعت سیکھو صرف حیرت ہی نہیں آئنوں میں ان سے اظہارِ حقیقت سیکھو صرف رنگت ہی نہیں پھولوں میں ان سے...
  6. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں

    کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں گنتیاں دب گئیں تاریخ کے طوماروں میں شہر ہیں یہ، کہ تمدن کے عقوبت خانے عمر بھر لوگ چنے رہتے ہیں دیواروں میں دن کو دیکھا غمِ مزدور میں گریاں ان کو شب کو جو لوگ سجے بیٹھے تھے درباروں میں آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہو لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں...
  7. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا

    اشک تھا، چشمِ تر کے کام آیا میں بشر تھا، بشر کے کام آیا میری قسمت میں شب تھی لیکن میں شمع بن کر سحر کے کام آیا روح میری، شجر کی چھاؤں بنی جسم، گرد و سفر کے کام آیا ق جبر کو بھی زوال ہے، جیسے آہن، آئینہ گر کے کام آیا عجز کو بھی عروج ہے، جیسے ایک قطره، گہر کے کام آیا ۔ زندگی، اہلِ شر کے گھر کی...
  8. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: نہ ظلمتِ شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے

    نہ ظلمتِ شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے مگر مسافر رواں دواں ہیں ہتھیلیوں پر چراغ دھر کے حصارِ دیوار و در سے میں نے نکل کے دیکھا کہ اس جہاں میں ستارے جب تک چمک رہے ہیں، چراغ روشن ہیں میرے گھر کے میں دل کا جامِ شکستہ لاؤں کہ روح کی کرچیاں دکھاؤں میں کس زباں میں تمھیں سناؤں، جو مجھ پر...
  9. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: میں حقائق میں گرفتار ہوں، وہموں میں نہیں

    میں حقائق میں گرفتار ہوں، وہموں میں نہیں کوئی نغمہ مری زنجیر کی کڑیوں میں نہیں ٹخنوں ٹخنوں میں پتاور میں کھڑا سوچتا ہوں جتنے پتّے ہیں یہاں، اُتنے درختوں میں نہیں شہر والو! یہ گھروندے ہیں، یہ گلیاں ہیں، یہ کھیت گاؤں والوں کی جو پوچھو تو وہ گاؤں میں نہیں غیر محسوس بہاروں کا وہ دَور آیا ہے رنگ...
  10. محمد تابش صدیقی

    احمد ندیم قاسمی غزل: برہنہ پا میں سوئے دشتِ درد چلتا ہوں

    برہنہ پا میں سوئے دشتِ درد چلتا ہوں میں اپنی آگ میں اپنی رضا سے جلتا ہوں مرے مزاج کی چارہ گری کرے گا کون چمن کی راہ سے، صحرا میں جا نکلتا ہوں اگر جلا نہ سکا مجھ کو آفتاب کوئی میں رنگ و بو کی تمازت میں کیوں پگھلتا ہوں مجھے تو پیکرِ محسوس سے محبت ہے میں صرف ایک تصور سے کب بہلتا ہوں سمیٹ لیتا...
  11. شاہ آتش

    غزل (برائے تنقید و اصلاح)

    سخن کو غزل سے یوں فرصت ملی ہے غمِ دل کو دل سے جو رخصت ملی ہے مرے اس قلم کو تُو کر دے مبارک سخن کو الٰہی کہ مدحت ملی ہے مجھے دل کو زم زم سے دھونا پڑا ہے تجھے دیکھنے کی اجازت ملی ہے وہ بچھڑا تو بالکل ہی ساکت رہا دل کہ یاسین سے دل کو حرکت ملی ہے بہت رو چکا ہوں مگر خوش ہوں میں اب کہ دل کو جو...
  12. محمد تابش صدیقی

    اکبر الہ آبادی غزل: کس قدر بے فیض ان روزوں ہوائے دہر ہے

    کس قدر بے فیض ان روزوں ہوائے دہر ہے بوئے گل کو دامنِ بادِ صبا ملتا نہیں ڈھونڈتے ہیں لوگ اس دنیا میں اطمینانِ دل کچھ بھی لیکن داغِ حسرت کے سوا ملتا نہیں نیشنل وقعت کے گم ہونے کا ہے اکبر کو غم آفیشل عزت کا اس کو کچھ مزا ملتا نہیں دل کی ہمدردی سے کچھ تسکین ہوتی تھی مگر اب تو اس مظلوم کا بھی کچھ...
  13. محمد تابش صدیقی

    اکبر الہ آبادی غزل: بت کدے میں مطمئن رہنا مرا دشوار تھا

    بت کدے میں مطمئن رہنا مرا دشوار تھا بت تو اچھے تھے، برہمن در پئے آزار تھا اکبرِ مرحوم کتنا بے خود و سرشار تھا ہوش ساری عمر اس کی زندگی پر بار تھا نزع میں آئی تجلی روئے جاناں کی نظر زہر سمجھے تھے جسے وہ شربتِ دیدار تھا دل ہی دل میں ہو لیے مستِ مئے منصور ہم شرع میں رخنے کا خطرہ تھا نہ خوفِ دار...
  14. عاطف ملک

    جس پل سے ترا عشق ہمیں دان ہوا ہے

    چند تک بندیاں: جس پل سے ترا عشق ہمیں دان ہوا ہے پہلے جو کٹھن تھا وہی آسان ہوا ہے الفت کا بھی کیا خوب ہی احسان ہوا ہے اب نام تمہارا مری پہچان ہوا ہے یہ بھول گیا فرطِ مسرت میں دھڑکنا اس دل میں ترا درد جو مہمان ہوا ہے جاتی ہے تو جاں جائے، نہ جائے گا یہ دل سے یہ عشق ہمیں صورتِ ایمان ہوا ہے...
  15. عاطف ملک

    ایک کاوش: شیون و فغاں لکھا اہلیت کے خانے میں

    محترم عامر امیر کی مشہور زمین میں ایک کوشش قابلِ قدر اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔شاید کوئی شعر آپ کو پسند آ جائے۔رائے ضرور دیجیے گا۔ شیون و فغاں لکھا اہلیت کے خانے میں اور داد خواہی کا شوق، لَت کے خانے میں دل کا گوشوارہ جب ہم نے کھول کر دیکھا تیرا غم لکھا پایا منفعت کے خانے میں...
  16. سید عاطف علی

    ایک تازہ غزل۔ کوہ کن کے خمار کی باتیں

    کوہ کن کے خمار کی باتیں سنگ،آہن، شرار کی باتیں چھوڑو سب کاروبار کی باتیں دارِ ناپائدار کی باتیں اب فقط راس یہ ہی آتی ہیں زندگی سے فرار کی باتیں پڑھ کے رویا بہت کوئی سرِگور سنگ لوح مزار کی باتیں زندگی نے بتائیں شام کے وقت تنگ ہوتے حصار کی باتیں کس کو دکھلائیں کس کو بتلائیں دامنِ تار تار کی...
  17. عاطف ملک

    غزل: خوب سمجھا ہوں میں دنیا کی حقیقت لوگو

    ایک پرانی غزل محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔ خوب سمجھا ہوں میں دنیا کی حقیقت لوگو! تب تلک چاہ ہے، جب تک ہے ضرورت، لوگو! خود پرستی کے فسوں ساز سمندر میں کہیں مر گیا ڈوب کے احساسِ مروت لوگو! نہ رہا دور کہ انمول تھے اخلاص و وفا اب تو لگتی ہے ہر اک چیز کی قیمت، لوگو! "جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے...
  18. Qamar Shahzad

    غزل: اور اس کے بعد ہمیشہ مجھے عدو سمجھے

    اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے مری مراد نہیں دوست ہو بہو سمجھے اگرچہ مادری میری زباں ہے پنجابی پہ شعر اردو میں کہتا ہوں تاکہ تُو سمجھے نہ سنگِ لفظ گرائے سکوت دریا میں کوئی نہیں جو خموشی کی آبرو سمجھے زبانِ حال سے کہتے رہے حذر لیکن تھرکتے جسم نہ اعضاء کی گفتگو سمجھے مجھ ایسے مست...
  19. Qamar Shahzad

    غزل: آج یہ کون مرے شہر کا رستہ بھولا

    آج یہ کون مرے شہر کا رستہ بھُولا دیکھ کر جس کو مرا قلب دھڑکنا بھُولا میں ہی مبہوت نہیں حسنِ فسوں گر کی قسم جس نے دیکھا اسے پلکوں کو جھپکنا بھُولا بھولتا کیسے مرا دل مری جاں کا مالک کون حاکم ہے کہ جو اپنی رعایا بھُولا بھولپن میں کیا اظہارِ محبت اس نے کتنا بھولا ہے، مرا بزم میں ہونا بھُولا...
  20. Qamar Shahzad

    غزل:عکس اس کا کہ مرا حرفِ دعا ہے

    عکس اس کا کہ مرا حرفِ دعا ہے، کیا ہے؟ گرد میرے جو معطر سی فضا ہے، کیا ہے؟ کیوں ہے یہ رزقِ سخن اس کے رہینِ منت وہ مرا رب ہے نہ رازق نہ خدا ہے، کیا ہے؟ اس کی آنکھوں سے ہویدا ہیں فسانے کیسے وہ جو ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہے، کیا ہے چاند چہرے پہ تغافل کے یہ بادل کیوں ہیں؟ کوئی رنجش ہے؟...
Top