غزل
سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے
تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے
واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے
یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے
مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی
میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے
گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے
سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن...
غزل
کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے
وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے
بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے
باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے
مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں!
کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے
خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی
یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...
(اسرارالحق مجازؔ)
غزل
بس اِس تقصیر پر اپنے مقدّر میں ہے مرجانا
تبسّم کو تبسّم کیوں،نظر کو کیوں نظر جانا
خِرد والوں سے حُسن و عِشق کی تنقید کیا ہوگی
نہ افسونِ نِگہ سمجھا، نہ اندازِ نظر جانا
مئے گُلفام بھی ہے، سازِ عشرت بھی ہے،ساقی بھی !
بہت مشکل ہے آشوبِ حقیقت سے گزر جانا
غمِ دَوراں میں...
غزل
اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسُو، بھنوَر کو چشمِ جانانہ کہیں
دار پر چڑھ کر، لگا ئیں نعرۂ زُلفِ صَنم!
سب، ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دِیوانہ کہیں
یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اُس کے حضوُر
زندگی کو دِل کہیں اور دِل کو نذرانہ کہیں
تھامیں اُس بُت کی کلائی اور کہیں اُس کو...
غزل
خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد
نادم تو وہ ر ہے تھے دِیے تہمتوں کے بعد
پہچان کچھ نِکھر سی گئی شدّتوں کے بعد
کندن ہُوئے ہیں غم سے جُڑی حدّتوں کے بعد
دستک ہُوئی یہ کیسی درِ در گزر پہ آج
شعلہ سا ایک لپکا بڑی مُدّتوں کے بعد
حیراں ہمارے صبر پہ احباب تک ہُوئے
راس آئے درد وغم ہمیں جب شدّتوں...
میرزایاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ
غزل
آنکھ کا مارا مرے نزدیک آزاری نہیں
اور جو سچ پُوچھو تو اچّھی کوئی بیماری نہیں
کہہ رہا ہُوں قابِلِ مرہم نہیں زخمِ جگر
چارہ سازو! یہ دِل آزاری ہے غم خواری نہیں
پھینک دو آئینۂ دِل کو جو گاہک اُٹھ گئے
اب کہِیں بازار میں اِس کی خریداری نہیں
دیکھتے ہی دیکھتے بدلا...
غزل
کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم
دل و دماغ ہیں تابع تمھارے، کون ہو تم
جو آکے بیٹھ گئے ہو مکین و مالک سا
دل و جگر میں محبت اُتارے کون ہو تم
خیال و خواب میں خوش کن جمالِ خُوب لیے
بسے ہو زیست کے بن کر سہارے کون ہو تم
تمھاری ذات سے منسُوب و منسلک سے رہیں
اُمید و بِیم کے سارے اِشارے کون ہو...
غزل
چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا
کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا
نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے !
تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا
یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے
چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا
سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے
سلامتی کا...
غزل
اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں
بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں
ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں
فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں
دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں
اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں
کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے
اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں
کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز !
کچھ بھروسہ بھی آسماں...
غزل
تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے
نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے
کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے !
نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے
ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے
رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے
اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر
نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے
پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے!
ہٹے نا اُمیدی بھی...
غزل
کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا
ذوق و شوق اپنے پر عتاب آیا
کیا کہیں کم نہ کچھ عذاب آیا
درمیاں جب سے ہے حجاب آیا
تب سِتم اُن کے کب شمُار میں تھے
پیار جب اُن پہ بے حساب آیا
منتظر ہم تھے گفتگو کے ، مگر
ساتھ لے کر وہ اجتناب آیا
خُونِ دل سے لکھا جو مَیں نے اُسے!
مثبت اُس کا کہاں...
غزل
محمد ابراہیم ذوقؔ
اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے
چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عِشق نے کُشتہ کِیا صُورتِ سِیماب مجھے
کل جہاں سے کہ اُٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پِھر دِلِ بے تاب مجھے
چمنِ دہر میں جُوں سبزۂ شمشِیر ہُوں مَیں
آب کی...
غزل
شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا
چاند چہرہ مِری نظروں سے چھپائے رکھنا
اُس کی تصوِیر کو سینے سے لگائے رکھنا
غمزدہ دِل کو کسی طور لُبھائے رکھنا
چاندنی راتوں میں یاد آئے ضرُور اب اُن کا
اِک قیامت سی، سرِ بام اُٹھائے رکھنا
ولوَلے ہیں، نہ کِرن ہی کوئی اُمّید کی ہے !
اِس بُجھے دِل میں...
غزل
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے
آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے
دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال
بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے
دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر
کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے
پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل
کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خُونِ دِل سے لِکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے!
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
مَیں نے شیشے میں جب اُتاری غزل
جب بھی غُربت میں دِل اُداس ہُوا
مَیں تِرے ساتھ ہُوں، پُکاری غزل
دَمِ تخلیق پچھلی راتوں کو
یُوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ...
آس محمد محسن
غزل
مَیں ہُوں حیراں یہ سِلسِلہ کیا ہے
آئنہ مجھ میں ڈُھونڈھتا کیا ہے
خود سے بیتاب ہُوں نکلنے کو
کوئی بتلائے راستہ کیا ہے
میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا
اِبتدا کیا ہے، اِنتہا کیا ہے
میں ہُوں یکجا ،تو پھر مِرے اندر
ایک مُدّت سے ٹُوٹتا کیا ہے
خود ہی تنہائیوں میں چِلّاؤں
خود ہی...
غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو
خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو
وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو
ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں...
غزل
کُچھ تو ہوکر دُو بَدُو، کُچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دِیا
دِل پہ جو گُذرا تھا ، ہم نے آگے اُس کے کہہ دِیا
باتوں باتوں میں جو ہم نے، دردِ دِل کا بھی کہا !
سُن کے بولا، تُو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دِیا
اب کہیں کیا اُس سے ہمدم ! دِل لگاتے وقت آہ
تھا جو کُچھ کہنا، سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دِیا
چاہ...