کلاسیکل شاعری

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی :::::Shafiq Khalish

    غزل دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا بال ہر روز ناپتی تھی کوئی یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی جن کو ہاتھوں سے...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں:::::Shafiq Khalish

    غزل دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
  3. طارق شاہ

    اثؔر لکھنوی :::::بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے :::::Asar -Lakhnavi

    غزل بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے تم تو، آئے اور دِل کی آگ بھڑکاتے ہُوئے موجِ مَے بَل کھا گئی، گُل کو جمَائی آ گئی زُلف کو دیکھا جو اُس عارض پہ لہراتے ہُوئے بے مروّت یاد کر لے، اب تو مُدّت ہو گئی ! تیری باتوں سے دِلِ مُضطر کو بہلاتے ہُوئے نیند سے اُٹھ کر کسی نے اِس طرح آنکھیں مَلِیں...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے::::: Shafiq Khalish

    غزل حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک! کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
  5. طارق شاہ

    حسرت جے پُوری::::::شُعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لیے آ::::::Hasrat Jaipuri

    غزل شُعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لیے آ پِھر نُور کے منظر کو دِکھانے کے لیے آ یہ کِس نے کہا ہے مِری تقدِیر بنا دے آ اپنے ہی ہاتھوں سے مِٹانے کے لیے آ اے دوست! مجھے گردِشِ حالات نے گھیرا تُو زُلف کی کملی میں چھپانے کے لیے آ دِیوار ہے دُنیا، اِسے راہوں سے ہٹا دے ہر رسمِ محبّت کو مِٹانے کے لیے آ...
  6. طارق شاہ

    درد خواجہ میر درد :::: سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے :::: Khwajah Meer Dard

    غزل سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے:::::Shafiq Khalish

    غزل کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں! کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...
  8. طارق شاہ

    مجاز لکھنوی ::::::بس اِس تقصیر پر اپنے مقدّر میں ہے مرجانا :::::Majaz Lakhnawi

    (اسرارالحق مجازؔ) غزل بس اِس تقصیر پر اپنے مقدّر میں ہے مرجانا تبسّم کو تبسّم کیوں،نظر کو کیوں نظر جانا خِرد والوں سے حُسن و عِشق کی تنقید کیا ہوگی نہ افسونِ نِگہ سمجھا، نہ اندازِ نظر جانا مئے گُلفام بھی ہے، سازِ عشرت بھی ہے،ساقی بھی ! بہت مشکل ہے آشوبِ حقیقت سے گزر جانا غمِ دَوراں میں...
  9. طارق شاہ

    مجرُوح سُلطانپوری :::::: اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں :::::: Majrooh Sultanpuri

    غزل اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں موج کو گیسُو، بھنوَر کو چشمِ جانانہ کہیں دار پر چڑھ کر، لگا ئیں نعرۂ زُلفِ صَنم! سب، ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دِیوانہ کہیں یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اُس کے حضوُر زندگی کو دِل کہیں اور دِل کو نذرانہ کہیں تھامیں اُس بُت کی کلائی اور کہیں اُس کو...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد:::::Shafiq Khalish

    غزل خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد نادم تو وہ ر ہے تھے دِیے تہمتوں کے بعد پہچان کچھ نِکھر سی گئی شدّتوں کے بعد کندن ہُوئے ہیں غم سے جُڑی حدّتوں کے بعد دستک ہُوئی یہ کیسی درِ در گزر پہ آج شعلہ سا ایک لپکا بڑی مُدّتوں کے بعد حیراں ہمارے صبر پہ احباب تک ہُوئے راس آئے درد وغم ہمیں جب شدّتوں...
  11. طارق شاہ

    یاس ؐمیرزا یاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ :::::آنکھ کا مارا مرے نزدیک آزاری نہیں ::::::yas, yagana,changezi

    میرزایاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ غزل آنکھ کا مارا مرے نزدیک آزاری نہیں اور جو سچ پُوچھو تو اچّھی کوئی بیماری نہیں کہہ رہا ہُوں قابِلِ مرہم نہیں زخمِ جگر چارہ سازو! یہ دِل آزاری ہے غم خواری نہیں پھینک دو آئینۂ دِل کو جو گاہک اُٹھ گئے اب کہِیں بازار میں اِس کی خریداری نہیں دیکھتے ہی دیکھتے بدلا...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم ::::::Shafiq Khalish

    غزل کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم دل و دماغ ہیں تابع تمھارے، کون ہو تم جو آکے بیٹھ گئے ہو مکین و مالک سا دل و جگر میں محبت اُتارے کون ہو تم خیال و خواب میں خوش کن جمالِ خُوب لیے بسے ہو زیست کے بن کر سہارے کون ہو تم تمھاری ذات سے منسُوب و منسلک سے رہیں اُمید و بِیم کے سارے اِشارے کون ہو...
  13. طارق شاہ

    محشر بدایونی :::::چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا :::::Mehshar Badayuni

    غزل چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے ! تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے سلامتی کا...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں::::::Shafiq Khalish

    غزل اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز ! کچھ بھروسہ بھی آسماں...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے::::::Shafiq Khalish

    غزل تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے ! نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے! ہٹے نا اُمیدی بھی...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا ::::::Shafiq Khalish

    غزل کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا ذوق و شوق اپنے پر عتاب آیا کیا کہیں کم نہ کچھ عذاب آیا درمیاں جب سے ہے حجاب آیا تب سِتم اُن کے کب شمُار میں تھے پیار جب اُن پہ بے حساب آیا منتظر ہم تھے گفتگو کے ، مگر ساتھ لے کر وہ اجتناب آیا خُونِ دل سے لکھا جو مَیں نے اُسے! مثبت اُس کا کہاں...
  17. طارق شاہ

    ذوق شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ ::::::اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے ::::: Mohammad Ibraheem Zauq

    غزل محمد ابراہیم ذوقؔ اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے عِشق نے کُشتہ کِیا صُورتِ سِیماب مجھے کل جہاں سے کہ اُٹھا لائے تھے احباب مجھے لے چلا آج وہیں پِھر دِلِ بے تاب مجھے چمنِ دہر میں جُوں سبزۂ شمشِیر ہُوں مَیں آب کی...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا ::::::Shafiq Khalish

    غزل شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا چاند چہرہ مِری نظروں سے چھپائے رکھنا اُس کی تصوِیر کو سینے سے لگائے رکھنا غمزدہ دِل کو کسی طور لُبھائے رکھنا چاندنی راتوں میں یاد آئے ضرُور اب اُن کا اِک قیامت سی، سرِ بام اُٹھائے رکھنا ولوَلے ہیں، نہ کِرن ہی کوئی اُمّید کی ہے ! اِس بُجھے دِل میں...
  19. طارق شاہ

    حسرت موہانی :::::: اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کرکے :::::: Hasrat Mohani

    غزل اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...
  20. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::: یہ ستم اور کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو :::::: Nasir Kazmi

    غزل یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا ! دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے ایک جھونکا ہی اُڑا...
Top