غزل
(وسیم بریلوی)
میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا
لیکن میری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا
سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ
لیکن تیرے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا
جاتی ہے چلی جائے یہ میخانے کی رونق
کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا
بہت خوبصورت ہو تم
(طاہر فراز)
بہت خوبصورت ہو تم
کبھی میں جو کہہ دوں محبت ہے تم سے
تو مجھ کو خُدارا غلط مت سمجھنا
کہ میری ضرورت ہو تم
ہے پھولوں کی ڈالی یہ باہیں تمہاری
ہیں خاموش جادو نگاہیں تمہاری
جو کانٹیں ہوں سب اپنے دامن میں رکھ لوں
سجاؤں میں کلیوں سے راہیں تمہاری
نظر سے زمانے کی خود کو بچانا...
غزل
(طاہر فراز)
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نرالا ہے
آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو
شاید کوئی آنسو آنے والا ہے
چاند کو جب سے الجھایا ہے شاخوں نے
پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے
خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا
گھر کے در و دیوار پر کتنا جالا ہے
غزل
(طاہر فراز)
گوشے بدل بدل کے ہر ایک رات کاٹ دی
کچے مکاں میں اب کے بھی برسات کاٹ دی
وہ سر بھی کاٹ دیتا تو ہوتا نہ کچھ ملال
افسوس یہ ہے اُس نے میری بات کاٹ دی
حالانکہ ہم ملے تھے بڑی مدّتوں کے بعد
اوقات کی کمی نے ملاقات کاٹ دی
جب بھی ہمیں چراغ میسّر نہ آسکا
سورج کے ذکر سے شبِ ظلمات کاٹ دی
دل...
غزل
(طاہر فراز)
جب کبھی بولنا، وقت پر بولنا
مدّتوں سوچنا، مختصر بولنا
ڈال دے گا ہلاکت میں اک دن تجھے
اے پرندے تیرا شاخ پر بولنا
پہلے کچھ دور تک ساتھ چل کے پرکھ
پھر مجھے ہم سفر، ہمسفر بولنا
عمر بھر کو مجھے بے صدا کر گیا
تیرا اک بار منہ پھیر کر بولنا
میری خانہ بدوشی سے پوچھے کوئی
کتنا مشکل ہے...
غزل
(طاہر فراز - رامپوری)
غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آگیا
غم یہ ہے قاتلوں میں تیرا نام آگیا
جگنو جلے بجھے میری پلکوں پہ صبح تک
جب بھی تیرا خیال سرِ شام آگیا
محسوس کر رہا ہوں میں خوشبو کی بازگشت
شاید تیرے لبوں پہ میرا نام آگیا
کچھ دوستوں نے پوچھا بتاؤ غزل ہے کیا
بےساختہ لبوں پہ تیرا نام...
غزل
(طاہر فراز)
میرے احساس کو شدّت نہ ملے
یا مجھے حکمِ قناعت نہ ملے
جس کے ملنے سے خُدا بن جاؤں
اے خُدا مجھ کو وہ دولت نہ ملے
میں تیرا شُکر ادا کرتا رہوں
اور مجھے حسبِ ضرورت نہ ملے
اتنا مصروف نہ کر تو کہ مجھے
تجھ سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملے
اُن ہی شاخوں پہ اُگاتا ہے مجھے
میری جن شاخوں سے فطرت...
غزل
(وسیم بریلوی)
اُصولوں پرجہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
نئی عمروں کی خودمختاریوں کو کون سمجھائے
کہاں سے بچ کے چلنا ہے، کہاں جانا ضروری ہے
تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیئے لوٹیں
سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے
بہت بیباک آنکھوں میں تعلق ٹک نہیں پاتا...
غزل
(راحت اندوری)
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
میں نہ جگنوہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں
نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں
موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور...
غزل
(نواز دیوبندی)
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مُسکرایا دیر تک
بھولنا چاہا کبھی اُس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بےساختہ میں ہنس پڑا
اُس نے اِس درجہ رُلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلّی کے لیئے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گُنگُناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ...
غزل
ایک نیا موڑ دیتے ہوئے پھر فسانہ بدل دیجئے
یا تو خود ہی بدل جائیے یا زمانہ بدل دیجئے
تر نوالے خوش آمد کہ جو کھا رہے ہیں وہ مت کھائیے
آپ شاہین بن جائیں گے آب و دانہ بدل دیجئے
یہ وفا کا جنازہ میاں اور ڈھوئیں گے کتنے دنوں
جب وہ تسلیم کرتا نہیں، آپ شانہ بدل دیجئے
مجھ کو پالا تھا جس پیٹر نے،...
ایک آسمانِ شہادت حُسین ہے کہ نہیں
بتاؤ دین کی عظمت حُسین ہے کہ نہیں
مٹانے والوں سے پوچھو جو مٹ گئے خود ہی
جہاں میں اب بھی سلامت حُسین ہے کہ نہیں
جب اُن کے سائے میں اسلام ہے تو شک کیوں ہے
نبی کا سایہء رحمت حُسین ہے کہ نہیں
یہ مرتضیٰ کے درِعلم کے ولی ہیں تو پھر
امامِ علم و ذہانت حُسین ہے کہ...
غزل
(منظر بھوپالی)
جسمِ یٰسین کو سائے سے الگ رکھا ہے
نُور کو اُس نے اندھیرے سےالگ رکھا ہے
ایک نقطہ بھی گوارا نہیں اپنی طرح
نامِ محبوب کو نقطے سے الگ رکھا ہے
فاصلہ عشق کی شدّت کو بڑھا دیتا ہے
اس لیئے کعبہ مدینے سے الگ رکھا ہے
غزل
(منظر بھوپالی)
کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم
وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم
ہمارا صبر تجھے خاک میں ملا دے گا
ہمارے صبر کا تجھ کو اثر نہیں معلوم
ہم اپنے گھر میں بھی بےخوف رہ نہیں سکتے
کہ ہم کو نیتِ دیوار و در نہیں معلوم
ہمیشہ ٹوٹ کہ ماں باپ کی کرو خدمت
ہے کتنے روز یہ بوڑھے شجر...
بٹیاں
(منظر بھوپالی)
ان کو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں
اپنی خدمت سے اُتر جاتی ہیں دل میں سب کے
ہر نئی نسل کو تہذیب یہ سکھلاتی ہیں
ان سے قائم ہے تقدس بھی ہمارے گھر کا
صبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں
لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بٹیاں اپنی برے...
غزل
(منظر بھوپالی)
گزر چکا ہے زمانہ وہ انکساری کا
کہ اب مزاج بنا لیجئے شکاری کا
ہم احترامِ محبت میں سر جھکاتے ہیں
غلط نکالنا مفہوم خاکساری کا
وہ بادشاہ بنے بیٹھے ہیں مقدر سے
مگر مزاج ہے اب تک وہی بھکاری کا
سب اُس کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں
وہ ایسا ڈھونگ رچاتا ہے شرمساری کا
جنہیں بلندی...
غزل
(منظر بھوپالی)
اہلِ کراچی کے لیئے منظر بھوپالی کی طرف سے
اب آسمانوں سے آنے والا کوئی نہیں ہے
اُٹھو کہ تم کو جگانے والا کوئی نہیں ہے
محافظ اپنے ہو آپ ہی تم یہ یاد رکھو
پڑوس میں بھی بچانے والا کوئی نہیں ہے
فضا میں بارود اُڑ رہی ہے جدھر بھی دیکھو
جہاں میں اب گُل کھلانے والا کوئی نہیں ہے
یہاں...
غزل
(منظر بھوپالی)
اہلِ کراچی کے لیئے منظر بھوپالی کی طرف سے
تم بھی بُلبل ہو اس باغ کے اور ہم شانِ گلزار ہیں
ساری سانسیں تمہاری نہیں، ہم بھی جینے کے حقدار ہیں
تنگ کردی گئی ہے زمیں، ہم پہ اس واسطے آج کل
ہم پجاری ہیں سچائی کے، آئینوں کے طرف دار ہیں
دُور سے ہم کو سمجھو گے کیا، پاس آکر تو دیکھو...
غزل
(کرم حیدری)
عمر ہے جنگل، ہم ہیں شکار اور ظالم وقت شکاری ہے
دن تو جوں توں کٹ ہی گیا ہے، رات کی منزل بھاری ہے
صدیوں سے ہر روز گرائے کیسے کیسے شاہ سوار
دنیا پھر ویسی کی ویسی اَلھڑ مست سواری ہے
اپنا آپ گنوا کر ہم نے پایا تو اتنا ہی پایا
برسوں کی محنت کے مقابل لمحوں کی غفلت بھاری ہے
بانہوں میں...
غزل
(کرم حیدری)
بقدرِ خواہشِ دل ہو سکی نہ بات اس کی
کہ میری سوچ سے بھی خوب تر تھی ذات اس کی
تمام جذبوں کی پاکیزگی کا حاصل تھی
اٹھی جو میری طرف چشمِ التفات اس کی
وہ بیکراں تھا مگر یوں سما گیا مجھ میں
کہ جیسے دل ہی تو میرا تھا کائنات اس کی
جمالِ رخ نے ہی مجھ کو نہ کر لیا مسحور
تھی گفتگو میں بھی...