غزل
احمد فرازؔ
مَیں کِس کا بخت تھا، مِری تقدِیر کون تھا
تُو خواب تھا ، تو خواب کی تعبِیر کون تھا
مَیں بے گلِیم لائقِ دُشنام تھا، مگر!
اہلِ صَبا میں صاحبِ توقِیر کون تھا
اب قاتِلوں کا نام و نِشاں پُوچھتے ہو کیا
ایسی محبّتوں سے بغلگیر کون تھا
مَیں زخم زخم اُس سے گَلے مِل کے کیوں ہُوا
وہ دوست...
غزل
محشرؔ بدایونی
گر ضربِ مخالفت نہ ہوگی
زندہ کبھی شخصیّت نہ ہوگی
بے راہ رَوی کی راہ چلیے
کوئی بھی مزاحمت نہ ہوگی
کی نقلِ رسُوم بھی تو ہم سے
بس نقلِ منافقت نہ ہوگی
بے سوچے ندائے حق نہیں دی
واقف تھے، کہ خیریت نہ ہوگی
اب چاہے یہ دِن بھی رات بن جائیں!
ظُلمت سے مصالحت نہ ہوگی
جو شہر کی زَمِیں...
غزل
یاد کر وہ دِن کہ تیرا کوئی سودائی نہ تھا
باوجُودِ حُسن تُو آگاہِ رعنائی نہ تھا
عِشقِ روزافزوں پہ اپنے مُجھ کو حیرانی نہ تھی
جلوۂ رنگیں پہ تجھ کو نازِ یکتائی نہ تھا
دِید کے قابل تھی میرے عِشق کی بھی سادگی !
جبکہ تیرا حُسن سرگرمِ خُودآرائی نہ تھا
کیا ہُوئے وہ دِن کہ محوِ آرزُو تھے حُسن...
فِراقؔ گورکھپُوری
مشیّت برطرف کیوں حالتِ اِنساں بَتر ہوتی
نہ خود یہ زندگی ہی زندگی دشمن اگر ہوتی
یہ کیا سُنتا ہُوں جنسِ حُسن مِلتی نقدِ جاں دے کر
ارے اِتنا تو ہم بھی دے نِکلتے جو خبر ہوتی
دھمک سی ہونے لگتی ہے ہَوائےگُل کی آہٹ پر
قفس میں بُوئے مستانہ بھی وجہِ دردِ سر ہوتی
کہاں تک راز کے صیغہ...
اثرؔ لکھنوی
غزل
بہار ہے تِرے عارض سے لَو لگائے ہُوئے
چراغ لالہ و گُل کے ہیں جِھلمِلائے ہُوئے
تِرا خیال بھی تیری ہی طرح آتا ہے
ہزار چشمکِ برق و شرر چُھپائے ہُوئے
لہُو کو پِگھلی ہُوئی آگ کیا بنائیں گے
جو نغمے آنچ میں دِل کی نہیں تپائے ہُوئے
ذرا چلے چلو دَم بھر کو ، دِن بہت بیتے
بہارِ صُبحِ...
غزل
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے
ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے
کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے
مُضطرب دِل نے آج پہلے سے
کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے
مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے
تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر
دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے
از سَرِ...
غزل
غلام ربانی تاباںؔ
ہَم ایک عُمر جلے، شمعِ رہگُزر کی طرح !
اُجالا غیروں سے کیا مانگتے، قمر کی طرح
کہاں کے جیب و گریباں، جِگر بھی چاک ہُوئے
بہار آئی، قیامت کے نامہ بر کی طرح
کَرَم کہو کہ سِتم، دِل دہی کا ہر انداز
اُتر اُتر سا گیا دِل میں نیشتر کی طرح
نہ حادثوں کی کمی ہے، نہ شَورَشوں کی...
غزل
تیری نظروں سے اُلجھ جانے کو جی چاہتا ہے
پِھر وہ اُلفت بھرے پیمانے کو جی چاہتا ہے
تیرے پہلُو میں دَبک جانے کو جی چاہتا ہے
غم سے کُچھ دیر نِکل آنے کو جی چاہتا ہے
دِل میں ڈر سے دَبی اِک پیار کی چنگاری کو
دے ہَوا، شعلہ سا بھڑکانے کو جی چاہتا ہے
جاں بچانے ہی ہم محفوظ مقام آئے تھے!
پھر مُصیبت...
غزل
شہریار
کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
اِن دِنوں یُوں ہے کہ، مرجانے کو جی چاہتا ہے
گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کوئی صُورت ہو، کہ پِھر آگ رگ و پے میں بہے
راکھ بننے کو، بِکھر جانے کو جی چاہتا ہے
کیسی مجبُوری و لاچاری ہے، اُس کُوچے...
غزل
اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا
بُرا دیکھے پہ کہنا کیا مَیں غصّہ اپنا پی نِکلا
بڑھانا عِشق میں اُس کے قدم بھی پَس رَوِی نِکلا
کہ دل برعکس میرے، پیار سے اُس کا بَری نِکلا
محبّت وصل کی خواہش سے ہٹ کر کُچھ نہ تھی ہر گز
معزّز ہم جسے سمجھے، وہ ادنٰی آدمی نِکلا
تصوّر نے...
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
گُل رنگی و گُل پیرَہَنی گُل بَدَنی ہے
وہ نامِ خُدا حُسن میں سچ مُچ کی بنی ہے
گُلزار میں خُوبی کے اب اُس گُل کے برابر
بُوٹا ہے نہ شمشاد نہ سرو چَمَنی ہے
انداز بَلا، ناز، سِتم، قہر، تبسّم
اور تِس پہ غضب کم نگہی، کم سُخَنی ہے
اُس گورے بدن کا کوئی کیا وصف کرے آہ !
ختم اُس کے...
غزل
فِراقؔ گورکھپُوری
یہ تو نہیں کہ غم نہیں!
ہاں میری آنکھ نم نہیں
تم بھی تو تم نہیں ہو آج!
ہم بھی تو آج، ہم نہیں
نشّہ سنبھالے ہےمجھے
بہکے ہُوئے قدم نہیں
قادرِ دو جہاں ہے، گو !
عشق کے دَم میں دَم نہیں
موت، اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
کِس نے کہا یہ تُم سے خضر!
آبِ حیات سم نہیں
کہتے ہو...
غزل
شہریار
مَیں چاہتا ہُوں! نہ آئیں عذاب، آئیں گے
یہ جتنے لوگ ہیں، زیرِعتاب آئیں گے
اِس اِک خبر سے سراسیمہ ہیں سبھی، کہ یہاں !
نہ رات ہوگی، نہ آنکھوں میں خواب آئیں گے
ذرا سی دیر ہے خوشبُو و رنگ کا میلہ
خِزاں کی زد میں ابھی یہ گُلاب آئیں گے
ہر ایک موڑ پہ اِک حشر سا بَپا ہوگا
ہر ایک لمحہ، نئے...
غزل
دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے
جو تحیّر میں ڈال سکتا ہے
کیا تخیّل نہ ڈھال سکتا ہے
مفت آزار پال سکتا ہے
خود کو بانہوں میں ڈال کر میرے
اب بھی غم سارے ٹال سکتا ہے
کب گُماں تھا کسی بھی بات پہ یُوں
اپنی عزّت اُچھال سکتا ہے
جب ہو لِکّھا یُوں ہی مُقدّر کا!
تب اُسے کون ٹال سکتا ہے
ذہن، غم دِل...
غزل
جنُوں کا دَور ہے، کِس کِس کو جائیں سمجھانے
اِدھر بھی ہوش کے دُشمن، اُدھر بھی دیوانے
کَرَم کَرَم ہے تو، ہے فیضِ عام اُس کا شعار
یہ دشت ہے وہ گُلِستاں، سحاب کیا جانے
کسی میں دَم نہیں اہلِ سِتم سے کُچھ بھی کہے !
سِتم زدوں کو، ہر اک آ رہا ہے سمجھانے
بشر کے ذَوقِ پَرِستِش نے خود کیے تخلیق...
سلام
۔
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
یہ گُل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لیے
کھڑے ہیں شاہ کمر بستہ اِمتحاں کے لیے
پِھر ایسی رات کب آئے گی آسماں کے لیے
دِیا بُجھا کے یہ کہتے تھے ساتھیوں سے حُسینؑ
جو چاہو، ڈھونڈ لو رستا کوئی اماں کے کیے
کہا یہ سُن کے رفیقوں نے یک زباں ہو کر !
یہ جاں تو وقف...
السلام علیکم !
ہمیں آج کل نیا شوق ہوا ہے یو ٹیوب پر ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے کا۔
ہم نے اپنا یو ٹیوب چینل کچھ عرصہ (دو سال )پہلے کھولا تھا۔ ہمیں امید تھی کہ ہماری ویڈیوز گنتی کے چند لوگوں نے دیکھی ہوں گی، لیکن جب ہم نے گزشتہ دنوں اسے کھولا تو ایک ایسی ویڈیو بھی تھی جس کے ویوز 2000 تک پہنچ چکے تھے۔...
ماہرؔ القادری
غزل
حُسن کے ناز و ادا کی شرح فرماتا ہُوں میں
شعر کیا کہتا ہُوں ماہرؔ! پُھول برساتا ہُوں میں
تشنگی اِس حد پہ لے آئی ہے، شرماتا ہُوں میں
آج پہلی بار، ساقی! ہاتھ پھیلاتا ہُوں میں
شوق و مستی میں کہاں کا ضبط، کیسی احتیاط
اِن حدوں سے تو بہت آگے نِکل جاتا ہُوں میں
عاشقی سب سے بڑا ہے...
غزل
نِگاہِ بے زباں نے کیا اثر ڈالا برہمن پر
مِٹا ہے پیکرِ بے دست و پا کے، رنگ و روغن پر
رہا تا حشر احسانِ ندامت اپنی گردن پر
بجائے مے، ٹپکتا ہے زُلالِ اشک دامن پر
شرف بخشا دِلِ سوزاں نے مُجھ کو دوست دشمن پر
وہ دِل جِس کا ہر اِک ذرّہ ہے بھاری موم و آہن پر
نجانے پہلی منزِل برقِ سوزاں کی کہاں...
غزل
سر سلامت پِھر بہارِ سنگِ طِفلاں دیکھنا
دِل سلامت لذّتِ صد درد و درماں دیکھنا
جنگِ حُسن و عشق کا، کیا دل شکن نظارہ ہے!
شعلہ و پروانہ کو دست و گریباں دیکھنا
آنکھ بھر کر جاگتے ہیں کوئی دیکھے کیا مجال
خواب میں ممکن ہو شاید رُوئے جاناں دیکھنا
جلوۂ موہوم کیا اِک دُرد کا پیمانہ ہے
ہوگیا آپے سے...