غزل
ہے کوئی ایسا محبّت کے گنہگاروں میں
سجدۂ شُکر بجالائے جو تلواروں میں
دِل سی دولت ہے اگر پاس، تو پِھر کیا پردا
نام لِکھوائیےیوسفؑ کے خرِیداروں میں
رُوح نے عالَمِ بالا کا اِرادہ باندھا
چِھڑ گیا ذکرِ وطن جب وطن آواروں میں
یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
(1914-16)
غزل
شاکر القادری
اِک لُطفِ نا تمام بڑی دیر تک رہا
وہ مُجھ سے ہمکلام بڑی دیر تک رہا
میں تشنۂ وصال تھا، پیتا چلا گیا
گردِش میں آج جام بڑی دیر تک رہا
تادیر میکدے میں رہی ہے مِری نماز
ساقی مِرا اِمام بڑی دیر تک رہا
کل بارگاہِ حُسنِ تقدّس مآب میں
دل محوِ احترام بڑی دیر تک رہا
اُلجھا رہا وہ زُلفِ...
غزل
سُوئے میکدہ نہ جاتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
وہ نِگاہ سے پِلاتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
گو ہَوائے گُلسِتاں نےمِرے دِل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اُٹھاتے،تو کُچھ اور بات ہوتی
یہ بَجا، کلی نے کِھل کر کیا گُلسِتاں مُعَطّر !
اگر آپ مُسکراتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
یہ کُھلے کُھلے سے گِیسو، اِنھیں...
غزل
تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم
مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم
وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم
خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم
آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے!
کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم
جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو
کیونکر...
غزل
ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے
نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے
ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
غزل
تیری صُورت جو، دِل نشیں کی ہے!
آشنا ، شکل ہر حَسِیں کی ہے
حُسن سے دِل لگا کے، ہستی کی!
ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے
صُبح ِگُل ہو، کہ شامِ میخانہ
مدح ، اُس رُوئے نازنِیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے، توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکرِ دوزخ بیانِ حُور و قصُور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک...
غزل
فراقؔ گورکھپوری
نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی
چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا
نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے!
لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا
کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد
خِرامِ...
غزل
بتاؤں کِس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹُوٹی نیند کی کرچیں سمیٹی ہیں
سفر مَیں نے سمندر کا کِیا کاغذ کی کشتی میں
تماشائی نِگاہیں اِس لیے بیزار اِتنی ہیں
خُدا میرے! عطا کرمجھ کو گویائی، کہ کہہ پاؤں
زمِیں پر رات دِن جو باتیں ہوتی مَیں نے دیکھی ہے
تُو اپنے فیصلے سے وقت! اب...
غزل
دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی
تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی
خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی
ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی
دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر
تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی
لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا
بال ہر روز ناپتی تھی کوئی
یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی
جن کو ہاتھوں سے...
غزل
دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں
اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں
جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے
ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں
خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر
کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں
جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں
اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں
کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں
دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
عِشق فُسردہ ہی رہا ،غم نے جَلا دِیا تو کیا
سوزِ جِگر بڑھا تو کیا، دِل سے دُھواں اُٹھا تو کیا
پھر بھی تو شبنمی ہے آنکھ، پھر بھی تو ہَونٹ خُشک ہیں
زخمِ جِگر ہنسا تو کیا ، غُنچۂ دِل کِھلا تو کیا
پھر بھی تو اہلِ غم تِرے، رازِ سُکوں نہ پا سکے!
تُو نے نظر کی لَورِیاں دے کے سُلا...
غزل
بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے
تم تو، آئے اور دِل کی آگ بھڑکاتے ہُوئے
موجِ مَے بَل کھا گئی، گُل کو جمَائی آ گئی
زُلف کو دیکھا جو اُس عارض پہ لہراتے ہُوئے
بے مروّت یاد کر لے، اب تو مُدّت ہو گئی !
تیری باتوں سے دِلِ مُضطر کو بہلاتے ہُوئے
نیند سے اُٹھ کر کسی نے اِس طرح آنکھیں مَلِیں...
غزل
حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے
کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے
ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک!
کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے
بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل
ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے
شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
غزل
دہن کو زخم، زباں کو لہوُ لہوُ کرنا
عزیزو! سہل نہیں اُس کی گُفتگوُ کرنا
کُھلے درِیچوں کو تکنا، تو ہاؤ ہُو کرنا
یہی تماشا سرِ شام کوُ بہ کوُ کرنا
جو کام مجھ سے نہیں ہو سکا،وہ تُو کرنا
جہاں میں اپنا سفر مِثلِ رنگ و بُو کرنا
جہاں میں عام ہیں نکتہ شناسیاں اُن کی
تم ایک لفظ میں تشریحِ آرزُو...
غزل
نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے
شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے
چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے
خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے
دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب !
جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے
خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ
اُمید ملنے کی جب بھی...
غزل
بہار آئی ہے کُچھ بے دِلی کا چارہ کریں
چمن میں آؤ حریفو ! کہ اِستخارہ کریں
شرابِ ناب کے قُلزُم میں غُسل فرمائیں
کہ آبِ مُردۂ تسنِیم سے غرارہ کریں
جُمود گاہِ یخ و زمہرِیر ہی میں رہیں
کہ سیرِ دائرۂ شُعلہ و شرارہ کریں
حِصارِ صومِعہ کے گِرد ، سعی فرمائیں
کہ طوفِ کعبہ رِندِ شراب خوارہ...
غزل
بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے
یہ دِل، کہانی کوئی سُنائے تو نیند آئے
بُجھی بُجھی رات کی ہتھیلی پہ مُسکرا کر!
چراغِ وعدہ، کوئی جلائے تو نیند آئے
ہَوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اُجاڑتا ہے
دِیے کی لَو خود سے تھر تھرائے تو نیند آئے
تمام شب جاگتی خموشی نے اُس کو سوچا!
وہ زیرِ لب گیت...
مرزاا یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
بر غزلِ شہیدیؔ
آرہی ہے یہ صدا کان میں ویرانوں سے
کل کی ہے بات کہ آباد تھے دِیوانوں سے
لے چلی وحشتِ دِل کھینچ کے صحرا کی طرف
ٹھنڈی ٹھنڈی جو ہوا آئی بیابانوں سے
پاؤں پکڑے نہ کہِیں کوچۂ جاناں کی زمِیں
خاک اُڑاتا جو نکل آؤں بیابانوں سے
تنکے چُن جا کے کسی کوچے میں او...
غزل
شُعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لیے آ
پِھر نُور کے منظر کو دِکھانے کے لیے آ
یہ کِس نے کہا ہے مِری تقدِیر بنا دے
آ اپنے ہی ہاتھوں سے مِٹانے کے لیے آ
اے دوست! مجھے گردِشِ حالات نے گھیرا
تُو زُلف کی کملی میں چھپانے کے لیے آ
دِیوار ہے دُنیا، اِسے راہوں سے ہٹا دے
ہر رسمِ محبّت کو مِٹانے کے لیے آ...
غزل
زخموں کے نئے پھول کِھلانے کے لئے آ
پھر موسمِ گُل یاد دلانے کے لئے آ
مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زُلفیں
آ، پھر مجھے دِیوانہ بنانے کے لئے آ
اب لُطف اِسی میں ہے، مزا ہے تو اِسی میں!
آ اے مِرے محبُوب! ستانے کے لئے آ
آ، رکھ دَہَنِ زخم پہ، پِھر اُنگلیاں اپنی
دِل بانسری تیری ہے،...