شمشاد نے کہا:ایک میاں کو رات بھر دوستوں کی محفل میں تاش کھیلنے کی عادت تھی۔ ایک رات حسبِ معمول وہ رات بھر دوستون میں تاش کھیلنے کے بعد صبح چار بجے گھر واپس آئے تو بیوی جلی بھنی بیٹھی تھی۔ بیوی نے میاں کو دیکھ کر کہا۔
“تمہیں تاش کھیلنے کے سوا کوئی کام ہے یا نہیں۔ ساری رات باہر دوستوں میں گزار دیتے ہو۔“
میاں چپ چاپ سب سنتے رہے۔ آخر بیوی نے کہا “ ارے تم بھی کچھ کہو، آخر ساری رات کے بعد صبح چار بجے کیا کرنے آئے ہو؟
“ ناشتا کرنے “۔ بڑی سادگی سے جواب ملا۔
شمشاد نے کہا:محب نے کام کرتے کرتے چونک کر سر اٹھایا۔ کھڑکی سے باہر دیکھا اور رضوان سے بولے۔
“ یار، یہ تو بارش شروع ہو گئی ہے۔ میری بیوی ایک کام کے سلسلے میں صدر گئی ہوئی ہے۔ مجھے تشویش محسوس ہو رہی ہے۔“
رضوان نے تسلی دی “ اس میں تشویش کی کیا بات ہے۔ وہاں اتنی بڑی بڑی دکانیں ہیں، وہ کچھ دیر کے لیے کسی دکان میں رک جائیں گی۔“
“ یہی سوچ کر تو میں تشویش زدہ ہوں۔“ محب اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے آہ بھر کر بولے۔
بےچارہ محب۔شمشاد نے کہا:محب نے کام کرتے کرتے چونک کر سر اٹھایا۔ کھڑکی سے باہر دیکھا اور رضوان سے بولے۔
“ یار، یہ تو بارش شروع ہو گئی ہے۔ میری بیوی ایک کام کے سلسلے میں صدر گئی ہوئی ہے۔ مجھے تشویش محسوس ہو رہی ہے۔“
رضوان نے تسلی دی “ اس میں تشویش کی کیا بات ہے۔ وہاں اتنی بڑی بڑی دکانیں ہیں، وہ کچھ دیر کے لیے کسی دکان میں رک جائیں گی۔“
“ یہی سوچ کر تو میں تشویش زدہ ہوں۔“ محب اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے آہ بھر کر بولے۔
شمشاد نے کہا:ایک میاں کو رات بھر دوستوں کی محفل میں تاش کھیلنے کی عادت تھی۔ ایک رات حسبِ معمول وہ رات بھر دوستون میں تاش کھیلنے کے بعد صبح چار بجے گھر واپس آئے تو بیوی جلی بھنی بیٹھی تھی۔ بیوی نے میاں کو دیکھ کر کہا۔
“تمہیں تاش کھیلنے کے سوا کوئی کام ہے یا نہیں۔ ساری رات باہر دوستوں میں گزار دیتے ہو۔“
میاں چپ چاپ سب سنتے رہے۔ آخر بیوی نے کہا “ ارے تم بھی کچھ کہو، آخر ساری رات کے بعد صبح چار بجے کیا کرنے آئے ہو؟
“ ناشتا کرنے “۔ بڑی سادگی سے جواب ملا۔
قہقہ۔سارہ خان نے کہا:پولیس‘
تمہیں کل صبح سویرے پھانسی دے دی جائے گی
سردار‘
ہا ہا ہا ہا
پولیس‘
ہس کیوں رہے ہو؟
سردار‘
میں تو صبح 12 بجے اٹھتا ہوں
علمدار نے کہا:غائب دماغ پروفیسرسے کسی نے پوچھا۔ ”آپ کی سالی کے گھر لڑکا ہوا ہے یا لڑکی؟“
پروفیسر نے کہا۔ ”مجھے کچھ نہیں معلوم ۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں نومولود کا خالو بناہوں یا خالہ ۔“
٭٭
علمدار نے کہا:غائب دماغ پروفیسرسے کسی نے پوچھا۔ ”آپ کی سالی کے گھر لڑکا ہوا ہے یا لڑکی؟“
پروفیسر نے کہا۔ ”مجھے کچھ نہیں معلوم ۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں نومولود کا خالو بناہوں یا خالہ ۔“
٭٭
نانی اماں نے منے سے کہا۔ ”بیٹے! جب تمھیں کھانسی آیا کرے تو منہ پر ہاتھ رکھ لیا کرو۔“
منا: ”آپ فکر نہ کریں، میرے دانت آپ کی طرح نقلی نہیں ہیں۔“
fahim نے کہا:
علمدار نے کہا:غائب دماغ پروفیسرسے کسی نے پوچھا۔ ”آپ کی سالی کے گھر لڑکا ہوا ہے یا لڑکی؟“
پروفیسر نے کہا۔ ”مجھے کچھ نہیں معلوم ۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں نومولود کا خالو بناہوں یا خالہ ۔“
٭٭
نانی اماں نے منے سے کہا۔ ”بیٹے! جب تمھیں کھانسی آیا کرے تو منہ پر ہاتھ رکھ لیا کرو۔“
منا: ”آپ فکر نہ کریں، میرے دانت آپ کی طرح نقلی نہیں ہیں۔“
شمشاد نے کہا:یہ لیں ہم بھی آپ کی ہنسی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ دراصل دیکھا ہی آج ہے۔
شمشاد نے کہا:ایک پولیس انسپکٹر کی شادی تھی، وہ سہرا باندھ کر اپنے دوستوں کے ساتھ کار میں جا رہا تھا۔ پیچھے باراتیوں کی بس آ رہی تھی۔ کافی دور جانے کے بعد انسپکٹر بولا :
“ یہ جو پیچھے بس آ رہی ہے، مشکوک لگتی ہے۔ گھر سے ابھی تک ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔“
شمشاد نے کہا:سنتا سنگھ نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد کلینک کھولا اور ڈاکٹر سنتا سنگھ بن کر پریکٹس شروع کر دی۔ پہلا مریض آیا تو انہیں نے بڑی تفصیل سے ٹارچ لیکر اس کے ناک، منہ، کان آنکھ کا معائنہ کیا اور بولے : بھلا کیا بولے ہوں گے ڈاکٹر صاحب؟
تھوڑا نیچے جا کر پڑھیں :
اور نیچے
تھوڑا سا اور
بس چند لائنیں اور
ڈاکٹر صاحب بولے ٹارچ ٹھیک ہے۔