عبدالقدیر 786
محفلین
اگر بُرش کرنا ہوتا تو کیا ہوتا
نہیں لیکن پھر بھی چمکدار ہیں ان کے دانت۔اور صاف ستھرے بھی۔
نوکیلے ہیں اور بالکل ساتھ جڑے ہوئے نہیں تو شاید اسی لئے۔
اگر بُرش کرنا ہوتا تو کیا ہوتا
نہیں لیکن پھر بھی چمکدار ہیں ان کے دانت۔اور صاف ستھرے بھی۔
نوکیلے ہیں اور بالکل ساتھ جڑے ہوئے نہیں تو شاید اسی لئے۔
بقول بز لائٹ ایئر: To infinity and beyondلیکن ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد تو ہونی چاھئیے نا
یہ حد ایک معاشرتی ٹریپ ہے، وگرنہ ترقی کی کوئی آخری منزل نہیں ہے۔لیکن ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد تو ہونی چاھئیے نا
ہمارے گھر تو شادی کے بعد سے ہی کبھی نہیں بنی۔ہاں پاکستان میں۔
اب تو روٹی کافی عرصہ سے چھوڑ دی ہے۔ بیگم کو کہا ہے کہ اپنے لیے آسانی رکھیں اور آسان چیزیں پکائیں۔ ویسے مجھے روٹی کی نسبت چاول زیادہ پسند ہیں۔
نہیں صاحب! ہاسٹل میں رہنا کبھی نصیب نہیں ہوا۔ ۲۰۰۳ میں جاپان جانا پڑا اور اس حالت میں کہ انڈا فرائی کرنے کے علاوہ کسی چیز کی قدرت نہ تھی۔ جانے سے دو روز قبل اماں نے پلاؤ بنانا سکھایا۔ایک سال جاپانی چاول، مچھلی، نوڈل، سبزیوں کے سہارے گزرا۔روٹی پکانا پھر بھی نہ سیکھ پائے۔ یہ حالت دیکھ کر ایک دوست نے بے ساختہ کہا، "ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، لیکن تم نے بھی اس ماں کو گھاس نہیں ڈالی"۔
ایک سال بعد شادی ہو گئی۔اللہ کے فضل سے بیگم دنیا بھر کے پکوان بنانے میں یدِ طولی رکھتیں تھیں۔ بغیر کسی مبالغے کے، بیگم کے ہاتھ کی پکی ہوئی کم از کم دو سو سے زیادہ ڈشیز کھائیں ہوں گی۔ فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ بیگم سے زیادہ مزیدار کھانا کبھی نہیں کھایا۔لیکن شومیٔ قسمت کہ صرف ایک چیز جو بیگم کو بنانی نہیں آتی تھی، وہ تھی "روٹی"۔ ہم نے بھی روٹی کا ووٹی سے نہ تقاضا کیا نہ ہی سرتاج کی محبت میں ووٹی نے اس کا ارادہ کیا۔ تب سے بغیر روٹی کے ووٹی کے ساتھ ساتھ ہانپ رہا ہوں۔ روٹی نہ کھا کر بھی وزن ہے کہ کم بخت سالوں میں بڑھتا ہی رہا ہے۔
ہاں پاکستان میں۔
اب تو روٹی کافی عرصہ سے چھوڑ دی ہے۔ بیگم کو کہا ہے کہ اپنے لیے آسانی رکھیں اور آسان چیزیں پکائیں۔ ویسے مجھے روٹی کی نسبت چاول زیادہ پسند ہیں۔
Grad school کے پورے عرصہ میں روٹی نہیں کھائی۔ہمارے گھر تو شادی کے بعد سے ہی کبھی نہیں بنی۔
اس کے بعد؟Grad school کے پورے عرصہ میں روٹی نہیں کھائی۔
بیگم کو پسند ہے لیکن ہفتہ میں ایک دو دفعہ ہی کھاتے ہیںاس کے بعد؟
آپ پکا لیتے ہیں؟بیگم کو پسند ہے لیکن ہفتہ میں ایک دو دفعہ ہی کھاتے ہیں
نہیں۔ البتہ بریڈ بیک کر لیتا ہوںآپ پکا لیتے ہیں؟
خود آپ نے چُک کو چُکنے کی بات کی تو ہم نے بس اس کا نتیجہ لکھا قدیر بھائی۔پھر تو لاٹھی ٹیک ٹیک کر ہی چلنا پڑے گا قدیر بھائی۔
یہ تو ٹھیک کہا آپ نے۔نقصان فائدہ جو دیکھتا ہے وہ کاروبار نہیں کرسکتا بہن
ہر ایک کی اپنی سوچ سمجھ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ درختوں کو کاٹنا چاہئیے۔سمجھ جائیں تو ہی بہتر ہے
بریڈ کا شعبہ ایسا رہا ہے کہ اس پر کبھی توجہ نہیں دی۔ اگرچہ کیک گھر میں بیک کرتے رہتے ہیں۔البتہ بریڈ بیک کر لیتا ہوں
اور ہم آٹا گوندھ آئے۔ گھر کی میتھی اور مرچیں۔ہاں پاکستان میں۔
اب تو روٹی کافی عرصہ سے چھوڑ دی ہے۔ بیگم کو کہا ہے کہ اپنے لیے آسانی رکھیں اور آسان چیزیں پکائیں۔ ویسے مجھے روٹی کی نسبت چاول زیادہ پسند ہیں۔
مکسر میں یا ہاتھوں سے؟ہم آٹا گوندھ آئے
معلوم نہیں۔۔۔ شاید سیکھ گئے ہوتے۔اگر بُرش کرنا ہوتا تو کیا ہوتا
ترقی کے معاملے میں ایسی کوئی حد نہیں ہے بھائی۔لیکن ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد تو ہونی چاھئیے نا
گول نہ سہی ، نقشے کی صورت ہی بنوا کر کھا لی ہوتی عرفان بھائیہمارے گھر تو شادی کے بعد سے ہی کبھی نہیں بنی۔
اپنے کام میں بھی تو جدت لانی ہوتی ہے وہ بھی ایک ترقی کی طرف گامزن قدم ہے اگر نہیں لائیں گے تو کام نہیں چلے گایہ حد ایک معاشرتی ٹریپ ہے، وگرنہ ترقی کی کوئی آخری منزل نہیں ہے۔
ہم تو ٹھیک ہی کہتے ہیں بس آپ ہی نہیں مانتییہ تو ٹھیک کہا آپ نے۔