آج ایک اسلامی کتاب میں پڑھا جہاں خروج (باغی یعنی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے)
مسلمانوں کی باہمی جنگ کی صورتیں
مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔
الف : لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اِس صورت میں اِن کے درمیان صلح کرانا یا یہ فیصلہ کرنا کہ اِن میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے؟ اور طاقت سے اِس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔
ب: لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں یا مسلمان حکومتیں ہوں اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو ۔ اِس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اِس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔
ج: لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے ۔ ان میں ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کررہا ہو اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہورہا ہو۔ اِس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف برسرحق فریق کا ساتھ دیں۔
د: فریقین میں ایک گروہ رعیت ہو اور اِس نے حکومت یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصطلاح میں اسی خروج کرنے والے گروہ کے لئے باغی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
باغی گروہ کی اقسام
باغی یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہوسکتے ہیں۔
الف : وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اِس خروج کے لئے اِن کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ اِن کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اِس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے۔ قطع نظر اِس کے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔
ب: وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے خروج کریں ۔ اور اِن کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو بلکہ اِن کا ظاہر حال یہ بتارہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ ا س صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اِس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے ۔ اگر وہ عادل نہ بھی ہوتو اِس حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعے فی الحال مملکت کا نظام قائم ہے۔
ج: وہ جو کسی شرعی تاویل کی بناء پر حکومت کے خلاف خروج کریں مگر ان کی تاویل باطل اور جن کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج ۔ اِس صورت میں بھی، مسلم حکومت خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، اِن سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اِس کا ساتھ دینا واجب ہے۔
د: وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں۔ جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لئے اٹھے ہوں اور اُن کا ظاہر حال یہ بتارہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔
ہ: وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں ۔ جبکہ اِس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہوچکی ہو۔ اِس صورت میں خواہ اِن کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو۔ بہر حال اِن سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اِ س کے ساتھ دینا واجب ہے۔
خروج کرنے والوں پر قانون کی بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا
خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور اُن کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ زیادہ جنگی سازو سامان رکھتے ہوں تو اُن پر قانون کی بغاوت کا اطلاق نہ ہوگابلکہ اُن کے ساتھ عام قانونی تعزیرات کے مطابق برتاو کیا جائے گا یعنی وہ قتل کریں گے تو اُن سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اُس کا تاوان اُن پر عائد ہوگا۔ قانون کی بغاوت کا طلاق صرف اِن باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں۔
خروج کرنے والے کو قتل یا قید نہیں کیا جاسکتا
خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد یا حکومت اور اِس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں ، اِن کو قتل یا قید نہیں کیا جاسکتا ۔ جنگ اِن کے خلاف صرف اِس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کردیں اور خونریزی کی ابتداء کر بیٹھیں۔