گھبرانے کا وقت آ چکا ہے
فہد کیہر17 جون 2019
خدا نہ کرے کہ کبھی کسی کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو کہ گاڑی چلاتے ہوئے پتا چلے کہ بریک فیل ہوچکے ہیں۔ سوچیں گاڑی کو روکنے کے لیے کیا کیا جتن کرنا پڑیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ گاڑی کسی درخت، کھمبے یا دیوار سے ٹکر کھا کر ہی رک پائے۔ ایسا کوئی بھی حادثہ پیش آنے کے بعد کوئی بھی سمجھدار آدمی گاڑی کی مرمّت کے دوران یقینی بنائے گا کہ اب بریک بالکل ٹھیک کام کریں گے تاکہ اسے دوبارہ کبھی ایسی بھیانک صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تاہم اگر ہر بار حادثے کا سبب ایک ہی ہو تو ضروری ہے کہ ایسی گاڑی کے مالک کا دماغی علاج کروایا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست کے اسباب گنوانا اب ایک گِھسا پٹا موضوع لگنے لگا ہے۔ صرف سال 2019ء میں جو ٹیم صرف 3 ون ڈے میچ جیتی ہو اور بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز، بلکہ آئرلینڈ، افغانستان اور زمبابوے سے بھی پیچھے ہو اس کے بارے میں کیا لکھا جائے؟ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک اچھے کپتان یا کوچ سے بھی کہیں زیادہ ضرورت ایک اچھے ماہرِ نفسیات کی ہے۔
بھارت کے خلاف مقابلہ ورلڈ کپ 2019ء کے پہلے مرحلے میں پاکستان کی نصف منزل تھا۔ یہاں کامیابی کا سیدھا سا مطلب یہی تھا کہ اب نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آگے کے مراحل طے کیے جا سکتے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ پاکستان اور بھارت میں مقابلہ جوڑ کا نہیں تھا۔ بھارت ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ ترین ٹیموں میں سے ایک ہے جبکہ شاید ہی کسی نے پاکستان کو بھی اس دوڑ میں شامل سمجھا ہو۔
بھارت کے خلاف مقابلہ ورلڈ کپ 2019ء کے پہلے مرحلے میں پاکستان کی نصف منزل تھا
اس کے باوجود روایتی حریفوں کے درمیان مقابلہ دراصل پریشر کا گیم ہوتا ہے۔ ہیرو بننے کی لگن اپنی جگہ لیکن زیرو بننے کا خوف بڑے بڑے کھلاڑیوں کا پِتا پانی کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جتنے میچ ہوئے ان میں سے بیشتر یکطرفہ مقابلے تھے کیونکہ اتنے زیادہ دباؤ کے اندر کھیلتے ہوئے حوصلے فوراً ٹوٹ جاتے ہیں۔ چیمپیئنز ٹرافی 2017ء کا فائنل تو یاد ہی ہوگا کہ کس طرح بھارت کو بدترین شکست ہوئی تھی؟ اس لیے اِس ورلڈ کپ میں پاک بھارت مقابلہ دونوں کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ اس نے ان ٹیموں کی پیش رفت کو ایک واضح سمت دینا تھی۔ بالآخر پاکستان کی کراری شکست کے بعد لگتا ہے کہ بھارت سیمی فائنل کی دوڑ میں جیت چکا ہے اور پاکستان اب کسی معجزے کا منتظر ہے۔
آخر ایسا کیوں ہوا؟ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے اور بارش کی دعائیں مانگنے جیسی بے وقوفانہ باتیں چھوڑ کر کچھ ٹھوس دلائل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بھارت انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے کامیاب انعقاد کی بدولت عالمی کرکٹ میں ایک بڑی طاقت بنا ہے لیکن کیا یہی فارمولا پاکستان پر لاگو کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) کے آنے کے بعد سے قومی کرکٹ، خاص طور پر ٹیسٹ اور ون ڈے، کو مسلسل زوال کا سامنا ہے۔
ہیرو بننے کی لگن اپنی جگہ لیکن زیرو بننے کا خوف بڑے بڑے کھلاڑیوں کا پِتا پانی کردیتا ہے۔
وجہ سادہ سی ہے کہ بھارت نے پچھلی 2 دہائیوں میں اپنے ڈومیسٹک کرکٹ انفرا اسٹرکچر کو بہت بہتر بنا لیا ہے جبکہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ آئے روز کی تبدیلیاں، کبھی پرانا اسٹرکچر بحال کرنا تو کبھی اسی کو خرابی کا سبب قرار دے کر مسترد کردینا، وہاں مسلسل کارکردگی دکھانے والوں کو نظر انداز کرنا اور ایسے ہی دوسرے تماشوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں کرکٹ اب ہاکی کی طرح زوال پذیر ہے اور خدا نہ کرے کہ اس کا انجام ہاکی جیسا ہو کیونکہ قومی کھیل کو بھی پے در پے شکستوں نے ہی اس حالت تک پہنچایا ہے۔ لہٰذا پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کے لیے ٹیم کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر اور درست میدان سے نہیں کیا جا رہا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سلیکشن ٹیلی وژن دیکھ کر کی جا رہی ہے۔
میدانِ عمل میں ایک دیرینہ مسئلہ فیلڈنگ کا بھی ہے اور پھر وہی ہوا جس کا خوف تھا۔ جس طرح فیلڈروں نے انگلینڈ کے خلاف میچ میں روٹ کو نئی زندگی دے کر سنچری بنانے دی، پھر آسٹریلیا کے کپتان آرون فنچ کو بھی موقع دیا کہ وہ ایک قائدانہ اور فاتحانہ اننگز کھیلیں، اسی طرح روہت شرما بھی پاکستانیوں کی سخاوت کو مان گئے ہوں گے۔ صرف 32 رنز پر انہیں تب چانس ملا جب فخر زمان نے غلط اینڈ پر تھرو کرکے روہت کو ایک یقینی رن آؤٹ سے بچا لیا۔ اس کے بعد روہت نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اور 140 رنز کی یادگار اننگز کھیل گئے۔
فخر زمان نے غلط اینڈ پر تھرو کرکے روہت کو ایک یقینی رن آؤٹ سے بچا لیا۔
پھر روہت شرما سمیت بھارت کے بلے باز آزادی کے ساتھ کھیلے، باؤنڈریاں ملیں یا نہ ملیں لیکن ایک، دو رنز کے ذریعے اسکور بورڈ کو مسلسل حرکت میں رکھا اور یوں دباؤ بڑھاتے چلے گئے۔
پاکستان نہ صرف فیلڈنگ کے دوران سنگلز اور ڈبلز کو روکنے میں ناکام رہا، بلکہ پاکستانی اننگز میں اس کی سخت کمی محسوس ہوئی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان نے ابتدائی 10 اوورز میں 42 ڈاٹ بالز کھیلیں یعنی کہ صرف 18 گیندیں ایسی تھیں کہ جن پر کوئی رن بنا۔ 327 رنز کے بڑے ہدف کے تعاقب میں جب آپ کے 2 بہترین بلے باز پہلے 10 اوورز میں صرف 38 رنز بنا پائیں تو نتیجے کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
درحقیقت پورے میچ میں ہمیں پاکستان کی کوئی منصوبہ بندی نظر ہی نہیں آئی، لگتا ہی نہیں تھا کہ ٹیم کسی گیم پلان کے ساتھ میدان میں اُتری ہے۔ اب یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان سے کہیں زیادہ جدید کرکٹ کھیلتا ہے۔ ان کے بلے باز بڑی ٹیموں کے خلاف بھی 300 سے زیادہ رنز بنا ڈالتے ہیں اور اتنے بڑے اہداف کامیابی سے حاصل بھی کر لیتے ہیں۔ نہیں سیکھا تو پاکستانیوں نے نہیں سیکھا۔۔۔ شاید سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
اب ورلڈ کپ 2019ء میں بظاہر بھارت کے قدم روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے بڑے حریفوں کو چِت کر چکا ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ بارش کی نظر ہوا اور روایتی حریف کے خلاف ایک شاندار کامیابی نے اس کے حوصلوں کو اور بلند کردیا ہے۔ لگتا ہے کہ انگلینڈ بھی اس کا راستہ نہیں روک پائے گا کیونکہ اگر بھارت کے حوصلوں کو کوئی چیز توڑ سکتی تھی تو وہ پاکستان کے ہاتھوں شکست تھی اور ورلڈ کپ تاریخ میں ایک بار پھر پاکستان بھارت کو روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔
درحقیقت پورے میچ میں ہمیں پاکستان کی کوئی منصوبہ بندی نظر ہی نہیں آئی،
پھر پاکستان کے لیے ورلڈ کپ اب ایک ناک آؤٹ ٹورنامنٹ بن چکا ہے۔ اسے اپنے باقی چاروں میچز جیتنے ہیں کہ جن میں اسے جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کو بھی ہرانا ہوگا اور بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے حریفوں کو بھی شکست دینا ہوگی۔ پھر دیکھا جائے گا کہ حالات کیا رُخ لیتے ہیں۔
فی الوقت تو صورتحال خطرناک ہے کیونکہ پاکستان 10 ٹیموں میں نویں نمبر پر ہے اور اس کا نیٹ رن ریٹ بھی تمام ٹیموں سے کم ہے یعنی اگر معاملہ رن ریٹ پر آیا تب بھی پاکستان کا امکان بہت کم ہوگا، یعنی گھبرانے کا وقت آ چکا ہے۔ اب جیت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور کامیابیاں بھی بڑی، ورنہ ورلڈ کپ کے ساتھ بہت سوں کی نوکریاں چلی جائیں گی۔