شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۸۲
کا سامان ہے، کجا زمین، کجا آسمان، نہ وہ جوہر پیدا ہوا نہ کسی نے اس کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا باوجود اس کے اُردو کی خوش اقبالی اور خوش رواجی قابلِ رشک ہے، کیونکہ اس کی اصل تو برج بھاشا ہے جو اپنی بہارِ جوانی میں فقط ایک ضلع میں لین دین کی زبان تھی، خود اُردو دلی سے نکلی۔ جس کا چراغ دلی کی بادشاہت کے ساتھ گل ہونا چاہیے تھا، پھر بھی اگر بیچوں بیچ ہندوستان میں کھڑے ہو کر آوازیں دیں کہ ان ملک کی زبان کیا ہے تو جواب یہی سنیں گے کہ اُردو اس کے ایک کنارے مثلاً پشاور سے چلو تو اول افغانی، اٹک اُترے تو پوٹھواری کچھ اور ہی کہتے ہیں، جہلم تک داہنے پر کشمیر پکار رہا ہے کہ یوروَلا، یوروَلا، یعنی اِدھر آؤ، بائیں پر، ملتان کہتا ہے کہ کتھے گھنیا، یعنی کہاں چلے، آگے بڑھے تو وہ بولی ہے کہ پنجابی خاص اسی کو کہتے ہیں، اس کے بائیں پر پہاڑی ایسی زبان ہے کہ تحریر و تقریر سب سے الگ ہے۔ ستلج اُتریں تو پنجابیت کی کمی سے لوگوں کی وضع و لباس میں بھی فرق شروع ہوتا ہے، دلّی پہنچے تو اور ہی سماں بندھا ہوا ہے، میرٹھ سے بڑھے تو علی گڑھ میں بھاشا سے مِلا جُلا پورب کا انداز شروع ہو گیا۔ کانپور، لکھنؤ سے الہ آباد تک یہی عالم ہے، جنوب کو ہٹیں تو مارواڑی ہو کر گجراتی اور دکھنی ہو جاتی ہے، پھر ادھر آئے تو آگے بنگالہ ہے اور کلکتہ پہونچکر تو عالم گونا گوں خلقِ خدا اور ملکِ خدا ہے، جس کا امتیاز حدِ انداز سے باہر ہے، میرے دوستو تم جانتے ہو کہ ہر شے کی اصلیت اور حُسن و قبح کے واسطے ایک مقام ایسا ہوتا ہے جیسے سِکہ کے لئے ٹکسال، کیا سبب ہے کہ ابتداء میں زبان کے لئے دِلی ٹکسال تھی؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ دارالخلافہ تھی، دربار ہی میں خاندانی اُمرا اور امیر زادے خود صاحب علم ہوتے تھے، اِن کی مجلسیں اہلِ علم اور اہلِ کمال کا مجمع ہوتی تھیں جن کی
کا سامان ہے، کجا زمین، کجا آسمان، نہ وہ جوہر پیدا ہوا نہ کسی نے اس کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا باوجود اس کے اُردو کی خوش اقبالی اور خوش رواجی قابلِ رشک ہے، کیونکہ اس کی اصل تو برج بھاشا ہے جو اپنی بہارِ جوانی میں فقط ایک ضلع میں لین دین کی زبان تھی، خود اُردو دلی سے نکلی۔ جس کا چراغ دلی کی بادشاہت کے ساتھ گل ہونا چاہیے تھا، پھر بھی اگر بیچوں بیچ ہندوستان میں کھڑے ہو کر آوازیں دیں کہ ان ملک کی زبان کیا ہے تو جواب یہی سنیں گے کہ اُردو اس کے ایک کنارے مثلاً پشاور سے چلو تو اول افغانی، اٹک اُترے تو پوٹھواری کچھ اور ہی کہتے ہیں، جہلم تک داہنے پر کشمیر پکار رہا ہے کہ یوروَلا، یوروَلا، یعنی اِدھر آؤ، بائیں پر، ملتان کہتا ہے کہ کتھے گھنیا، یعنی کہاں چلے، آگے بڑھے تو وہ بولی ہے کہ پنجابی خاص اسی کو کہتے ہیں، اس کے بائیں پر پہاڑی ایسی زبان ہے کہ تحریر و تقریر سب سے الگ ہے۔ ستلج اُتریں تو پنجابیت کی کمی سے لوگوں کی وضع و لباس میں بھی فرق شروع ہوتا ہے، دلّی پہنچے تو اور ہی سماں بندھا ہوا ہے، میرٹھ سے بڑھے تو علی گڑھ میں بھاشا سے مِلا جُلا پورب کا انداز شروع ہو گیا۔ کانپور، لکھنؤ سے الہ آباد تک یہی عالم ہے، جنوب کو ہٹیں تو مارواڑی ہو کر گجراتی اور دکھنی ہو جاتی ہے، پھر ادھر آئے تو آگے بنگالہ ہے اور کلکتہ پہونچکر تو عالم گونا گوں خلقِ خدا اور ملکِ خدا ہے، جس کا امتیاز حدِ انداز سے باہر ہے، میرے دوستو تم جانتے ہو کہ ہر شے کی اصلیت اور حُسن و قبح کے واسطے ایک مقام ایسا ہوتا ہے جیسے سِکہ کے لئے ٹکسال، کیا سبب ہے کہ ابتداء میں زبان کے لئے دِلی ٹکسال تھی؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ دارالخلافہ تھی، دربار ہی میں خاندانی اُمرا اور امیر زادے خود صاحب علم ہوتے تھے، اِن کی مجلسیں اہلِ علم اور اہلِ کمال کا مجمع ہوتی تھیں جن کی